کشمیر چیلنجز اور امکانات

منگل 1 اپریل 2014

Younas Majaz

یونس مجاز

تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیو ٹ کے زیرِ اہتمام دو روزہ عالمی کانفرنس "کشمیر چیلنجز اور امکانات"کا انعقاد بروز 26.27مارچ کواسلام آباد میں ہوا۔کانفرنس کو دو دن میں مختلف موضوعات کیساتھ پانچ سیشنزہوئے- جس میں مختلف پاکستانی اور عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ عالمی امور نے خطاب کیا۔کانفرنس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جن میں بالخصوص تحقیقاتی اداروں، سفارت خانوں اور یونیورسٹیوں کے مندوبین اور ممبران پارلیمنٹ بھی شامل تھے دوران سیشن وقفہ سوال و جواب کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں شرکاء اور ماہرین کے مابین سیر حاصل گفتگو ہوئی- مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی سلطان محمد علی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی افواج کی موجودگی بھارت کے جدید جمہوری ریاست ہونے کے ہر دعوے کی نفی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ریاستی جارحیت جدید تہذیب میں کسی دور گزشتہ کا عکس دکھاتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ان تمام عالمی اداروں کے وجود اور کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے جو انسانی حقوق اور عالمی امن کے نفاذ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دارکہلائی جاتی ہیں قائد ایوان سینٹ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بھارت میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں عوامی رائے قائم ہو رہی ہے جو کہ ایک اچھی علامت ہے انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ و ہ کانفرنس کی سفارشات اور مقررین کی تجاویز کو ذاتی طور پر وزیر اعظم پاکستان اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے عمل درآمد اور غور و فکر کے لیئے پیش کریں گے- وفاقی وزیر برائے امورکشمیر و گلگت بلتستان چوھدری برجیس طاہر نے کہا کہ کشمیر میں علیحدگی کی نہیں بلکہ آزادی کی تحریک چل رہی ہے کشمیریوں نے کبھی بھارت کی عملداری کو تسلیم نہیں کیا بھارت کا رشتہ کشمیر سے غاضبانہ قابض سے زیادہ کا نہیں۔

ہم اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی اس بات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے رہنما سید علی گیلانی نے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں کہا کہ کشمیر فقط ایک علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کے بنیادی اسلامی تشخص اور اسکی فکری اساس سے تعلق رکھتاہے ۔

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کو کبھی بھی کشکول لیئے کسی مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ بھر پور قوت کے ساتھ اپنے اصولی مئوقف کے ذریعے کشمیر ی عوام کے حقوق کی جدوجہد رجاری رکھنی چاہیئے ۔ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا مسئلہ کشمیر کے حل پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ زندگیوں کے مستقبل کا انحصار ہے ۔

یہ مسئلہ دو فریقین کے مابین حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ کشمیری عوام اس تنازعے کے سب سے اہم فریق ہیں اور اس کا دیر پا حل صرف ان کی امنگوں کے مطابق ہی ممکن ہو سکتا ہے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا کہ پاکستان کے لیئے لازم ہے کہ وہ اپنا اصولی مئوقف برقرار رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ہر عالمی پلیٹ فارم اور ادارے میں اٹھائے اور مسئلے کے حل کے لیئے بھارت پر دباؤ برقرار رکھے ۔

قائداعظم کے نظریہ کے مطابق کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ صدرآزاد جموں وکشمیر سردار یعقوب خان نے اس امر کو سراہا کہ تمام مقررین اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلہ کشمیر صرف کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے۔ چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے مسئلہ کشمیر کو قومی ایجنڈے پر برقرار رکھنے اور عالمی سطح پر توجہ دلانے کے لیئے ادارے اور اس کے کشمیر ڈیسک کی کاوشوں کا تعارف کروایا انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی جن کے تحت مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کے مطابق حل ہونا چاہیئے۔

انہوں نے زور دیاکہ اس سلسلے میں عالمی برادری پر بھی بھاری ذمہ داری ہے اور اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے عالمی اداروں کی ساخت پربھی انگلی اٹھ رہی ہے انہوں نے زور دیاکہ کشمیر میں ریاستی تشدد اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے کے لیئے عالمی طاقتوں کو بھارت پر سیاسی اور اقتصاد ی پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ سابق وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود نے کہا کہ سماجی انصاف اور انسانیت کی تقدیس ہی وہ اصول ہیں کہ جن کو بنیاد بنا کر مسئلہ کا دیر پا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

سابق وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر سردار عتیق احمد خان نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے کسی تیسری قوت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور وقت آن پہنچا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف ایک ایسا طریقہ کار وضع کریں جس میں کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادتیں بھی مسئلہ کے دیر پا تصفیے تک پہنچنے کے لیئے اپنا کردار اداکریں۔

سابق سیکرٹری جنر ل برائے امور خارجہ سینیٹر اکر م ذکی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کے لیئے علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ کشمیری عوام کے مستقبل اور ان کے حق خود ارادیت کی ادائیگی کا سوال ہے پاکستان اور بھارت کے مابین صرف وہی امور طے پا سکے ہیں جن میں بین الاقوامی ثالثوں کا کردار رہا ہو۔افغانستان سے عالمی فوجوں کے انخلاء کے تناظر میں پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اپنی سٹریٹیجک اہمیت کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے امریکہ اور دیگری عالمی قوتوں کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالے تا کہ اس مسئلے پر عالمی توجہ مذکور کرائی جا سکے۔

عالمی شہرت یافتہ برطانوی مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی سے چھپی نہیں اور ایسی صورتحال میں یہ محیر عقل ہے کہ عالمی برادری کس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے مسئلہ کشمیر کے دونوں فریق ایٹمی طاقتیں ہیں جو ہمہ وقت جنگ کے خطرے سے دوچار ہیں ایسی صورتحال میں غیر ریاستی عناصر معاملے کی کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے کسی بھی وقت کسی بڑے سانحے کا باعث بن سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے اس مسئلے کی وجہ سے اپنے قیمتی وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیئے۔

سابق سفیراور چیئر مین آئی ایس ایس آئی خالد محمود نے کہا کہ شملہ معاہدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اثر کو زائل نہیں کر سکتا جن کے مطابق مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ذمہ داری ہمہ وقت بین الاقوامی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔انہوں نے سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ بھارت کے کہنے پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بجائے حل کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔

سعادت پارٹی کی بانی رکن ڈاکٹر اویا مغیث الدین نے کہا کہ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی آڑ میں تحریک آزادی کشمیر کو بھی دہشت گردی جتلانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ اب تک ناکام رہا ہے ۔ مسلم دنیا کوشانہ بشانہ کھڑے ہو کراپنے مسائل میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہو گی تاکہ ہمارے تنازعات کا فیصلہ غیر ہم پر مسلط نہ کریں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر)مسعود اختر نے کہا پاکستان کے لیئے لازم ہے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پا کر اپنے اندرونی حالات استوار کرے ۔

تب ہی عالمی برادری سے کشمیر پر پاکستان کے اصولی مئوقف کی تائید کی امید رکھی جاسکتی ہے انہوں نے کہا کہ عالمی دباؤ کے ذریعے بھارت کو باورکرانا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اس کا اپنا مفاد بھی شامل ہے۔پاکستان سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر اسے توانائی کے وسائل تک بہتر رسائی اور علاقے میں امن کی وجہ سے بہتر تجارتی ماحول بھی مہیا ہو گا۔

کانفرنس کے اختتام پر چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمدعلی نے مقررین کے مقالوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تجاویز پیش کیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
-مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر رکھنے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں-
-اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے متعلق کام کرنے والے دیگر عالمی اداروں کو یقینی بنانا چاہئیے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے عالمی معیار پر پورا اترے اور لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے-
-سفارتی اور عوامی سطح پر اُجاگر کیا جانا چاہئے کہ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی ایک عالمی جدوجہدہے اور یہ دہشتگردی ہر گز نہیں ہے -
-آزادی کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد کو اتنی اہمیت دینی چاہئے جتنی کے یہ حقدار ہیں-
-مسئلہ کشمیر کو ایک جغرافیائی مسئلہ کی بجائے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق، زندگی اور تقدیر کے مسئلہ کو طور پر سامنے لانا چاہئے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :