امداد ،قرض یا سپاری!!

جمعرات 20 مارچ 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ( SIPRI) کی17مارچ کو جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2009ء اور 2013ء کے درمیان عالمی طور پر بھارت اور ، چین کے بعد پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک ہیں۔ پچھلے سال کی نسبت بھارت نے 111فی صدجبکہ کہ پاکستان نے 119فی صد زیادہ اسلحہ کی خریداری کی ہے۔

بدقسمتی سے دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والے پہلے تینوں ممالک میں غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کی آبادی پوری دنیا کی کل غریب آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت میں کل آبادی کا 83فی صد، پاکستان میں 72فی صد جبکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں آدھی سے زیاہ آبادی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی بسر کررہی ہے۔

(جاری ہے)

چین کے غریبوں میں سے 10کروڑسے زائد وہ (غیر قانونی )لوگ ہیں جو چینی ماں باپ کی دوسری اولاد ہونے کی وجہ سے رجسٹرڈ شہری نہیں ہیں اور اسلئے اپنے ہی ملک میں انکی کوئی شناخت نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ دس کروڑ” غیر قانونی “ بچے کسی بھی سرکاری ملازمت ،شہری حقوق اور قانون کی چھتری حاصل نہیں کرسکنے کی وجہ سے بدترین استحصال کروانے پر مجبور ہیں۔

اسی دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں مزید 10کروڑسے زائد لوگ گھر نہ ہونے کی وجہ سے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ارب پتیوں اور مفلوک الحال لوگوں کے تیز ترین اضافے سے طبقاتی تضاد میں پہلے نمبر پر آنے والے ،چین کے سامراجی عزائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف اس سال دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھارت کئی لحاظ سے عالمی رینکنگ میں سب سے آگے ہے۔

ایک برطانوی ادارے ”تحفظ اطفال “کے مطابق زچہ بچہ کی دیکھ بال اور صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے بھارت میں ہر سال پیدائش کے دن ہی پانچ لاکھ اٹھانوے ہزار اڑتیس بچے فوت ہوجاتے ہیں جبکہ ہر ایک ہزار بچوں میں سے 126بچے پانچ سال کی عمر کے دوران ہی مرجاتے ہیں،اسکی وجہ غربت،بیماریاں اور علاج معالجے کی کمی ہے ۔بھارت کے صرف ایک شہر کولکتہ میں 70ہزار سے زائد مائیں اپنی کوکھ میں پلنے والے بچوں کو جنم دینے کی بجائے اسقاط حمل کے ذریعے وقت سے پہلے ان بچوں کو ضائع کراتی ہیں تاکہ ان کے گردے اور دیگر اعضا ء بیچے جاسکیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹیاں بھی بھارت میں ہیں۔بھارت میں ہرسال ڈھیرہ لاکھ کے قریب مقروض کسان سود اور قرض کی ادائیگی نہ کرسکنے کی وجہ سے فصلوں کو دینے والی کیڑے مار ادویات کھا کرخودکشی کرلیتے ہیں ۔بھارت قومی حقوق کے استحصال میں بھی عالمی رینکنگ میں سب سے بلند مقام پر کھڑا ہے۔ ریاستی اور قومی اسمبلیوں،فلم انڈسٹری ،کرکٹ سمیت دیگر شعبوں پر جرائم پیشہ اور مافیاز کا سکہ چلتا ہے۔

سرمایہ داری نظام کے زوال کے عہد میں معیشت اور معاشرت پر مختلف قسم کے مافیاز حاوی ہوچکے ہیں۔۔ پچھلے سال کی نسبت 119فی صد زیادہ اور عالمی سطح پراسلحہ کا تیسرابڑا درآمد کندہ پاکستان تعلیم ،صحت،صاف پینے کی فراہمی،نکاسی آب پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبروں پر ہے۔ چونکہ اس وقت صوبہ سندھ کا صحرائی علاقہ تھر میڈیا کے فوکس پر ہے لہذا اب تک میڈیا رپورٹس کے مطابق بھوک،ادویات اور علاج معالجہ میسر نہ آنے کی وجہ سے175 زائد بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور مزیدہلاکتیں روزانہ وار جاری ہیں جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھوک کی وجہ سے ہلاکتیں میڈیا اور حکومت کی ابھی تک توجہ حاصل نہیں کرسکیں ۔

صرف 2012ء میں خسرے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد310تھی۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت (WHO)کی رپورٹ کے مطابق2013کے ابتدائی مہینوں میں ہی خسرے کے 12951کیس رجسٹرڈ ہوئے اور ان بچوں میں سے 290وفات پاگئے۔”تحفظ اطفال“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیدائش کے دن ہی ایک ہزار میں سے40.7بچے موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں،افغانستان،نائیجریا،سیری الیون،صومالیہ ،گنی بساؤ میں حالات پاکستان کی نسبت قدرے بہتر ہیں اور پاکستان پہلے دن اموات کے لحاظ سے سرفہرست ہے ۔

پاکستانی اسپتالوں میں ہر سال57000 بچے علاج معالجے کی سہولت اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔پاکستان میں 63فی صد بیماریاں غربت کی وجہ سے ہیں۔آبادی کے صرف 25فی صد شہری حصے میں واٹر سپلائی فراہم کی جاتی ہے ،جس میں مہیا کیا جانے والا پانی ”قابل اعتبار“ اور عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتا۔پاکستان میں ہر چھٹا آدمی ہیپا ٹائٹس جیسی موذی مرض میں مبتلا ہے۔

پولیو کیسز روز دریافت ہورہے ہیں۔اسی طرح تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی ہے،جہاں ریاست سب سے کم پیسے خرچ کرتی ہے اور ترجیح کے اعتبار سے بھی یہ شعبہ سارے ریاستی شعبوں اور اداروں میں آخری درجے پر ہے۔سرکاری طور پر 54فی صد خواندگی (جو کہ سراسر مشکوک ہے۔اور اپنا نام لکھ لینے والے کو خواندہ مانا جاتا ہے) کی شرح اکسویں صدی میں شرمناک ۔گویا آدھی آبادی جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے۔

تعلیم حاصل کرنے والے بچوں میں سے انیس لاکھ بچوں کو مدرسوں اور ملاؤں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے،جہاں سے ہر سال سینکڑوں خود کش بمبار نمودار ہوتے اور تباہی مچاتے ہیں۔ اسلحہ کی درآمد میں پچھلے سال کی نسبت 119فی صد اضافے کے مقابلے میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں آبادی کے اضافے کے تناسب سے ہر سال کمی کی جارہی ہے۔ صرف1973-74کے مالی سال میں جب ایک سوشلسٹ، ڈاکٹر مبشر حسن خان وزیر خزانہ تھے، ان دونوں شعبوں میں مجموعی طور پر 42.3فی صد خرچ کیا گیا تھا جبکہ مالی سال 2013-14کے بجٹ میں وفاق نے تعلیم پر 0.3فی صد،پنجاب نے0.7فی صد،سندھ نے0.5فی صد،بلوچستان نے 0.1فی صد،خیبر پختون خواہ نے0.3فی صدکی شرمناک رقوم منڈی کی معیشت کی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔

جبکہ 871ارب روپے کے پنجاب کے بجٹ میں گیارہ کروڑ لوگوں کی صحت کے لئے کل 44.5ارب روپے رکھے گئے تھے۔سندھ،پختون خواہ اور بلوچستان میں اس شعبے پر خرچ کی جانے والی رقم کا تناسب اس سے بھی کم ہے۔ اسی طرح اگر ہم صفائی اور گندے پانی کی نکاسی ،ریل،سڑکوں،ہوائی سفر،روڈ ٹرانسپورٹ سمیت دیگر اہم ضروریات زندگی کا سرسری سا بھی جائیزہ لیں تو ہر طرف تباہی اور بربادی کا منظر نظر آتاہے۔

سامان جنگ و حرب پر اربوں ڈالر خرچ کئے جانے والے ملک میں اندرونی سلامتی نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔امن وامان ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔روزانہ سینکڑوں ہلاکتیں غیرطبی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔جن میں مافیاز،منشیات فروشوں،جہادیوں،بھتہ اور قبضہ گروپوں کی باہمی چپقلش اور عوام پر حملوں کی وجہ سے ہلاکتیں شامل ہیں۔ رقبے اور قدرتی وسائل کی بنیا د پر سب سے بڑا صوبہ بلوچستان سماجی بربادی،پسماندگی،پست معیار زندگی،سہولیات زندگی کی عدم فراہمی،جہالت،انفراسٹرکچراور بدامنی کی بنا پر پانچویں صدی میں زندگی گزار رہا ہے۔

مگر پاکستان کے جدید کہلوانے والے شہروں کے اندر کئی طرح کے شہر بس رہے ہیں۔کراچی ،لاہور،ملتان،فیصل آباد،گوجرانوالہ،سیالکوٹ حتہ کہ پنڈی اور اسلام آباد کے گردونواح میں ان شہروں کی نسبت ستر سے اسی فی صد کچی بستیاں نظر آتی ہیں ،جن میں زندگی سسک رہی ہے۔چھوٹے چھوٹے نیم کچے پکے گھروندوں میں انسانیت ا پنے عہد کی پیداوری صلاحیت،تکنیک اور سائینسی حاصلات کے سامنے شرمناک حد تک رسوائی کا شکار نظر آتی ہے۔

کچی بستیوں میں نیم خواندہ اور نیم ہنر مند انسانوں کا” خام مال“ اور” بولنے والی مشینیں“بس سرمائے کی غلامی کے لئے پناہ گزین کے طور پر زندگی بسر کرتی نظر آرہی ہیں ،لہذا ان بستیوں میں ضروریات زندگی کی فراہمی،سٹرکوں،واٹر سپلائی،بجلی ،گیس،اسٹریٹ لائیٹس،نکاسی آب،ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو حکمران طبقے نے فراموش کیا ہوا ہے۔

مگر خود شہروں کے اندر صرف گلبرگ،ڈیفنس اوربحریہ ٹاؤن نہیں ہیں بلکہ آبادی کا ایک بڑا حصہ پسماندگی کا شکار ہے اور سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ اسلحے کی خریداری میں جتنی بڑی رقم پاکستان کی مفلوک الحال ریاست خرچ کررہی ہے اسکے مقا بلے میں اگر معیشت کا جائیزہ لیا جائے تو اس وقت پاکستانی ریاست پر 17356ارب روپے کا قرضہ ہے ،جس کی رو سے ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔

پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کا 60ارب ڈالر کا مقروض ہے اور یہ قرضہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔دوسری طرف بلدیاتی انتخابات نہ ہونے میں ایک بڑی وجہ سرکاری پرنٹنگ پریسوں کا مسلسل کرنسی چھاپنا ہے جو کہ حقیقی دولت کی بجائے محض کاغذ کے چیتھڑے ہیں،اسی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بڑھتا جارہا ہے اور معیشت کی سالانہ نمو (تمام تر جعلی اعداد وشمار اور جھوٹ کے باوجود) گراؤٹ کا شکار ہے۔

ان حالات کے باوجود اسلحہ اور جنگی جنون کی بیماری بڑھتی جارہی ہے۔ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی متذکرہ بالا رپورٹ حتمی رپورٹ نہیں ہے اس رپورٹ کے بعد خبر آئی ہے کہ پاکستان ناٹو فورسز اور امریکی افواج سے افغانستان میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ بھی خرید رہا ہے جسکی قیمت بھی پاکستان کے محنت کش طبقے کو ادا کری پڑے گی۔ اس ساری صورتحال میں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ کہاں خرچ ہوگا؟ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کے امکانات نسبتاََ کم ہوچکے ہیں۔

غیر ریاستی مسلح جتھوں (طالبان وغیرہ)کی سرکوبی کے لئے اتنے بڑے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں ہے اور پھر انکے خلاف کسی بڑے آپریشن کے امکانا ت بھی بظاہر کم ہوتے جارہے ہیں۔ان مذہبی شدت پسندوں کے غیر ملکی آقا ان دنوں بہت متحرک ہیں،مولانا سمیع الحق کے دورہ سعودی عرب کے بعد ان مذہبی شدت پسندوں کو مالی ،فکری،سفارتی امداد فراہم کرنے والے برادر اسلامی ممالک کے وفود یکے بعد دیگر پاکستان کا چکر لگارہے ہیں۔

اس کیفیت کا سب سے اہم پہلوخلیج میں عوامی بغاوتوں،سیاسی مزاحمت اور ممکنہ انقلابی لہروں کے ابھار کا پیش منظر ہے۔بحرین اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے بے چین دورے ،”معاہدے“ اور پاکستانی ریاست کو بھاری رقم کی فراہمی صرف شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف امریکی ،قطری،سعودی حکومت کی اعانت میں القائدہ،النصر برگیڈ ،فری سیرین آرمی ، الاحرار الشام کے ساتھ ملکر خلفشار بڑھانے کے لئے نہیں ہیں۔

بلکہ بحرین اور سعودی عرب کے اندر لرزتی ہوئی شہنشاہیت کو درپیش ممکنہ بغاتوں اور شورشوں کی سرکوبی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی عسکری صلاحیت کو استعمال میں لانا ہے۔ایسا اس سے قبل بارہا ہوچکا ہے۔ بحرین میں فروری 2011ء میں عوامی بغاوت کو کثیر القومی افواج اور ریاستی بربریت سے کچلنے کے بعد پاکستان سے بڑے پیمانے پر سابق فوجیوں اور سیکورٹی سے متعلقہ افراد کو بھاری تنخواہوں پر خاندانوں سمیت بحرین لے جایا گیا جو پاکستانی ریاست کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

اس سے قبل بھی آل سعود کے خلاف ہونے والی مسلح بغاوتوں اور خانہ کعبہ پر قبضہ قرار دیے جانے والے واقعہ پر پاکستان کی افواج کو استعمال میں لاکر ان شورشوں پر قابو پایا گیا تھا۔1970میں اردن میں پاکستان افواج کے ذریعے مبینہ طور پر 25ہزار فلسطینیوں کو شہید کرکے شاہ حسین کی مدد کی گئی تھی۔افغانستان کی امریکی جنگ ،جس میں پاکستان 1978ء سے ہراول کردار ادا کررہا ہے، جیسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قوت میں اضافہ اور اسلحہ کی خریداری پاکستان کے دفاع سے زیادہ خارجی مقاصد کے لئے ضروری ہے، جن کا تعین عام طور پر ”اسلامی برادر ممالک“ اور ریاست ہائے امریکہ کے حکمران کرتے ہیں۔

یہ ایک خوفناک ماضی کا تسلسل ہے ،کیونکہ ہر عمل کے ردعمل میں خمیازہ صرف پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے یہ نہ صرف معیار زندگی کی گراؤٹ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے بلکہ مہنگائی،سامراجی غلامی اور پھر دھشت گردی اور ہلاکتوں کی شکل میں یہ ردعمل بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔1.5ارب ڈالر کی امداد نما سپاری، جہاں خلیج میں عوامی خواہشات کے قتل،شام ،میں مزید ہلاکتوں اورجابر شیوخ اور شہنشاہوں کی مطلق العنان حکومتوں کی مضبوطی کا باعث بنے گی وہاں اسکی کئی گنا قیمت پاکستان کی معصوم عوام ادا کرنا پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :