مدارس کا شکوہ!

منگل 18 مارچ 2014

Syed Zikar Allah Hasni

سید ذکر اللہ حسنی

مدارس کو حکومت اور سیاسی جماعتوں سے یہ شکوہ ہے کہ انہیں قومی دھارے میں شامل نہیں سمجھا جارہا اور مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کو حکومتی اداروں میں اہمیت نہیں دی جارہی۔ گویا دینی مدارس کو معاشرے کا عضو معطل سمجھا جارہا ہے۔ اس پر مزید معاملات یہ بھی ہیں کہ حکومت کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی میں یورپی ،سیکولر اور مذہب بیزار قوتوں کے دباوٴ پر مدارس کو خاص ہدف پر رکھ کر ان کے اکاوٴنٹس اور نصاب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جس کے خلاف وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے بروقت ملک بھر میں دینی مدارس کی تقسیم انعامات کی تقریبات اور تحفظ مدارس دینیہ واسلام کا پیغام امن کے عنوان سے کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔گزشتہ روزوفاق المدراس العربیہ پنجاب کے ناظم مولانا قاضی عبدالرشید نے قاضی ظہور علوی کے ہمراہ فیصل آباد کا دورہ کیا اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے واضح کیا کہ دینی مدارس کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔ مدارس امن کے مراکز ہیں کوئی کسی بھول میں نہ رہے۔ 20مارچ کوامن کانفرنس کوکامیاب بنانے کیلئے وفاق المدارس العربیہ سے منسلک فیصل آباد کے سینکڑوں مدارس بسوں کے قافلے کے ساتھ دینی مدارس کی امن کانفرنس میں قاسم باغ ملتان پہنچیں گے۔ اجتماع میں جامعہ امدادیہ کے صدر مفتی محمد طیب، جامعہ دارالقرآن کے مولانا قاری محمد یاسین ،مولانا محمد یوسف اول سمیت شہر بھر کے علماء، مہتممین، خطباء، آئمہ مساجد بھی موجود تھے۔

مولانا قاضی عبدالرشید نے کہا کہ پوری دنیا کی کفریہ طاقتیں اس وقت پاکستان اور پاکستان میں موجود دینی مدارس کے خلاف متحد ہوچکی ہیں اور مختلف حربوں وبہانوں سے انہیں مٹانے یا ان کی خود مختاری ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن عالم کفر کی یہ سازشیں نہ پہلے کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی آئندہ ان شاء اللہ کامیاب ہوں گی۔ انہوں نے کہا حکومت کو دینی مدارس کی بجائے اپنے ماتحت چلنے والے ان سرکاری سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز کی فکر کرنی چا ہئے جو دن بدن انحطاط اور زوال کی طرف گامزن ہیں۔

ان تعلیمی اداروں پر حکومت اربوں روپیہ خرچ کررہی ہے مگر اس کے نتیجے میں مایوس اور ڈیپریشن کی شکار بے روزگار نسل کی تیاری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہورہا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مدارس کے اکاوٴنٹس کے بارے میں سب سے زیادہ فکر ان کو ہے جو کبھی مدارس کے معاون نہیں رہے۔ بلکہ سب سے زیادہ مدارس سے بدظن ہی وہی لوگ ہیں جو کبھی مدارس کے استقبالیہ تک جانے کی بھی جسارت نہیں کرسکے۔

ہمیں سب سے پہلے ایسے لوگوں کومخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ وفاق المدارس سے منسلک ایسے مدارس میں چند روز قیام کرکے نصاب اور معاملات دیکھیں امید ہے ان کا موٴقف خود ہی تبدیل ہوجائے گا۔ دوسری بات یہ کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کیلئے حکومت اور سیاسی جماعتوں پر سب سے بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے مگر عملی طور پر سوائے بلوچستان کے کسی اور صوبے کو یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل مسند عالم دین کی وفاق المدارس کی جاری کردہ اسناد کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں کالجز، یونیورسٹیز، سرکاری دفاتر اور انتظامیہ میں تعینات کرنے کا حوصلہ کرے۔

یہ بات مشاہدے میں ہے کہ تنظیم، اخلاق، عزت وتکریم کے حوالے سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگ عصری اداروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ جتنا زور دینی مدارس میں عصری علوم کے داخلے کیلئے لگایا جاتا ہے اتنا زور دینی علوم کے عصری اداروں میں داخلے کیلئے بھی لگایا جائے۔ اگر دینی مدارس کا یہ شکوہ دور کردیا جائے اور عملی طور پر اس کا اظہار ہوجائے تو امید ہے کہ دینی مدارس کو احتجاج کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :