کبھی نہیں

اتوار 16 مارچ 2014

Hussain Jan

حُسین جان

ایک دانشور نے لکھا ایک وقت آئے گا پاکستانی عوام اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑئے ہو ں گے، کسی اور نے شیخی بگاڑی یہ قوم اپنے قاتلوں کا گریبان پکڑ کر ان کو سڑکوں پر گھسیٹے گی، عالی جاہ نے پیشین گوئی فرمائی فرانس و چائینہ کا انقلاب دروازے پر کھڑا ہے۔ کسی نے کہا وہ وقت دور نہیں جب ووٹ کے زریعے یہ قوم خون بہانے والوں کا حساب برابر کر دیں گے۔

ہمارے ملک کے ایک بہت ہی دینی و سیاسی تجزیہ کار نے بہت سے دلائل کے ساتھ قلم چلایا اور ہمیں بتایا کہ اس قوم میں غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاادراک ہے اور عنقریب یہ بھوکے شیر کی طرح جھپٹ کر اپنے شکار کو دبوچ لیں گے۔ بہت سے پر امید حضرات یہ سوچ رہے ہیں کہ اس ملک میں انقلاب کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔

(جاری ہے)


انقلاب کے لیے مہنگائی، غربت، جہالت،بے روزگاری، لا قانونیت،خوکشیاں ،طبقاتی کشمکش،ناانصافی،قتل گیری جیسے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔

خوش قسمتی سے ہمارے ہاں یہ تمام لوازمات نا صرف موجود ہے بلکہ ان کی تعداد میں دن دگنی رات چگنی ترقی بھی ہو رہی ہے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کو انصاف دینے کی بجائے خودکشیوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہر شہر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ غربت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ بیروزگاری کا جن عوام کو نگل رہا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

قانوں نام کی کسی چیز کا وجود تک نہیں۔ جہالت کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر رہے ہیں۔ کسی نے کہاکہ موسیٰ سے اللہ نے فرمایا اب دھیان سے ہمارے پاس آنا کہ دعا کرنے والی نہیں رہی ۔ لیکن یہاں تو دراز عمر کی دعا مانگنے والیاں ہی قاتل بنی ہوئی ہیں۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے، بلوں کی مد میں عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہڈالا جا رہاہے اُس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔

میلے ٹھیلوں سے اس قوم کا دل بہلانے والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض ادا کر دیے ہیں۔ اور عوام ہم سے خوش ہیں دیکھانے کی بھاگ دوڑ سے کسی کا کچھ نہیں ہونے والا جو بھی کرنا ہے عملی طور پر کرنا ہوگا۔ سسک کر مرنے والوں نے مرنا سیکھ لیا ہے لیکن عزت کی زندگی جینا نا تو سیکھا ہے اور نا ہی سیکھیں گے۔ جہاں تک کہ ایک دور اندیش کا قول ہے اس قوم کی تو آنے والی نسلوں کو بھی عزت کی زندگی نصیب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔


ریاست کے وسائل پر کچھ گروہوں کا قبضہ،ٹیکس کی اصلاحات، بادشاہت اور جمہوریت پسندوں کے درمیان کشمکش،اقتداریافتہ لوگوں کی بے انصافیا ں جیسی وجوہات سے انقلابِ فرانس برپا ہوا تھا۔ شائد اس قوم میں کچھ جان و غیرت باقی تھی کہ ایک وقت پر انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کے لیے کمر کس لی اور پھراپنے حقوق کے لیے ایسی جدوجہد کی کہ آج بھی اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

اسی طرح دُنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے چاہیے خونی ہوں یا پر امن لیکن ان کے مقاصد ایک ہی تھے کہ عوام کو مراعات یافتہ طبقے کے چنگل سے آزادی دلائی جائے ملکی وسائل سے ہر انسان کو حصہ ملے۔ جینے کے تمام لوازمات ہر شہری کی دسترس میں ہوں۔ ملک کو ترقی کی شاہرہ پر ڈال کر ملکی وقار میں اضافہ کیا جائے۔ اللے تللیوں کو اُن کی اوقات میں رکھ کر عوامی بہتری کے منصوبے شروع کیے جاہیں۔

اور پھر بہت سے ممالک نے ایسا کر بھی دیکھایا جس کی مثالیں ہمارے کالم نگار، تجزیہ کار اور دانشور حضرات گاہے بگاہے اپنے اپنے "ارشادات"میں فرماتے رہتے ہیں۔
لیکن آفرین ہے اس قوم پر جو کبھی اس کے کانوں میں جوں بھی رینگی ہو۔ ظلم سہنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اگر ایک دن کوئی ظلم یا زیادتی نا ہو تو سارا سارا دن پریشانی میں گزار دیتے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں جب جاتے ہیں تو وہاں کتے کی طرح دھتکارے جاتے ہیں مگر کبھی گلہ شکوہ کرتے نظر نہیں آئے۔ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اُٹھائیں گے ہاں خودکشی کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کر لیں گے۔ ہاں کبھی کبھی آٹے میں نمک برابر کچھ سر پھیرے اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر نظر آتے ہیں مگر قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے بے چاروں کی دال گلتی نہیں اور وہ صلوات پڑتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

طالبان اور امریکہ کے چکر میں ہمیں ایسے جکڑ رکھا ہے کہ کسی دوسری طرف دھیان نہیں جاتا۔ وہ تو اللہ بھلا کرئے ہمارے میڈیا کا کہ کچھ نہ کچھ رولا ہر وقت ڈالتا رہتا ہے جس سے کسی نہ کسی غریب کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کی رٹ کو لے کر ایسے ایسے دلائل دیے جاتے ہیں کہ انسانی عقل دھنگ راہ جاتی ہے۔ دائیں بائیں کا سوشہ چھوڑ کی عوام کو ٹرک کی بتی کے پچھے لگا دیا جاتا ہے۔


اگر ہماری حکومتیں طالبان کی طرف سے نظر ہٹائیں تو انہیں کچھ اور نظر آئے کہ ملکی حالات کہاں پہنچ چکے ہیں انصاف دینے والے جب انصاف کا قتل کرتے ہیں تو ملک میں کیسا انتشار پھیلتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی عمائدین پر عتماد ہیں کہ اس قوم کی غیرت کبھی نہیں جاگے گی۔ مختلف گروہوں میں بھٹی ہوئی یہ قوم اپنے حق کے لیے کبھی نہیں اُٹھے گی۔ یہاں تو ہر ایک کی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے لہذا سب کے حقوق بھی مختلف ہیں۔

مذہبی تفرقہ، ذات پات میں ہم ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ یہ زنجیریں ہمارا پچھا نہیں چھوڑتیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ لوگ علما سے اجازت طلب کرتے ہیں کہ فلاں فرقے کا آدمی وفات پا گیا ہے کیا اُس کا جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ جب کوئی قوم اس قدر بٹی ہو اُس قوم کا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی کبھی انقلاب کے لیے تیار نہیں ہو ں گے تو اس کا جواب بھی نہ میں ہیں کیونکہ مندرجہ بالا سطور میں میں بتا چکا ہوں کہ انقلاب کے لیے جن جن مسائل کا ہونا ضروری ہوتا ہے وہ سب موجود ہیں۔

تھر میں مرنے والوں کو ہی دیکھ لیں اگر میڈیا وہاں تک نہپہنچ پاتا تو ناجانے ابھی کتنے معصوم اور اپنی جانوں سے جاتے۔ لیکن بڑھے پیمانے پر کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ملک ریاض صاحب کے حوالے سے بہت سی منفی باتیں پھیلائی گئیں ہے ہو سکتا ہے اُن میں بہت سی برائیاں بھی ہوں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی بھی کسی کو ضرورت پڑی ہے ملک ریاض نے کچھ نہ کچھ قدم ضرور اُتھایا ہے۔

لیکن آفرین ہیں ہماری سیاسی جماعتوں پر کہ وہ ریلف فنڈ اکاونٹ بنا لیتی ہیں کہ عوام اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے اس میں پیسے ڈالیں لیکن خود کبھی کسی سیاستدان یا لیڈروں نے اپنی جیب سے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا۔ کریں بھی کیسے اُن کی اپنی جیبں نہیں بھرتی۔ اُن کے اپنے بچوں کے اتنے اخراجات ہیں کہ انہیں کسی دوسری طرف پیسے خرج کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔


لہذا ہمارے تمام سیاسی لیڈروں ،حکمرانوں اور بابوں کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ جو چاہے کرتے رہیں کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں کبھی عوام کی طرف سے اتنی مذاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑئے گا کہ اپنے فیصلے تبدیل کرنا پڑئیں۔ یہ عوام کبھی ان کا گریبان چاک نہیں کرے گی۔ خود پر آنے والی مصیبتوں کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے لیکن اپنے صاحبوں کو تنگ نہیں کرتی۔

دُنیا کے تمام ممالک کے حکمران بھی دن رات یہی دعائیں کرتے ہوں گے کہ ہمیں بھی پاکستان جیسی قوم میسر آجائے جو کبھی بھی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑتی ۔ یہاں تو کسی غریب کو کبھی تھانے جانا پڑ جائے تو اُس کا پیشاب نکل جاتا ہے۔ کبھی کسی غریب کی دُکان کے آگے پولیس کی گاڑی کھڑی ہوجائے تو چہ مگوییاں شروع ہو جاتی ہیں اس لیے بے فکر رہیں عالی جاہ اور ہم پر حکومت کرتے ہیں کہ ہم آپ کے گیتسدا گاتے رہے ہیں۔ آپ کی بڑی بڑی تصاویر کے پوسٹر آپ کو ہر سڑک پر نظر آجاہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :