ہم ایک اور نیک بن سکتے ہیں

اتوار 16 مارچ 2014

Zahid Raza Khan

زاہد رضا خان

سوشلزم اور کمیونزم کے دعویدار انسانوں کو اونچ نیچ سے نکال کر سب انسانوں کو برابر بنانے کا دعوہ لیکر اٹھے تھے لیکن وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ قدرت نے انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ کبھی بھی ایک لیول پر نہیں آسکتے۔جو ڈاکٹر میں خوبیاں ہیں وہ انجینئر میں نہیں ہو سکتیں۔جو سائنسدان میں تحقیقی امور میں عبور حاصل ہے وہ سیاست دانوں میں موجود نہیں ہوسکتا۔

ایک عام مزدور جتنی محنت اور مشقت کر سکتا ہے وہ پڑھالکھا صحت مند نوجوان نہیں کر سکتا۔ہر انسان میں مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔جس طرح دنیا کی بناوٹ میں اونچ نیچ،روشنی،اندھیرا،گرمی سردی،خشکی نمی،ریگستان،دریا سمندر،پہاڑ وغیرہ سب اپنی الگ ہیت رکھتے ہیں اسی طرح انسانوں اور دوسرے جانداروں کو قدرت نے مختلف قسموں کا بنایا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن چونکہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اس لئے اس میں غیر معمولی خوبیاں بھی پیدا کی ہیں۔وہ اگر ایک طرف درندہ صفت ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بروئے کار لاکر امن پسند اور بہترین انسان بھی بن سکتا ہے۔انسان کو اچھے اور برے دونوں رستوں کی تمیز ہوتی ہے ۔برائی کے برے انجام اور اچھائی کے اچھے نتائج سے بھی وہ ناواقف نہیں ۔

اگر وہ اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے گا تو دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ایک نئی زندگی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور پائے گا۔اور یہ زندگی اس کی کبھی ختم نہ ہوگی۔مگر انسان جلد باز ہے وہ اسی فانی زندگی میں سب کچھ پالینے کی خواہش رکھتا ہے اسی لئے وہ اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو ہی بھول جاتا ہے۔

وہ کبھی سوچتا ہی نہیں کہ اس کو انسان کیوں بنایا گیا۔اسے کوئی بے نتھا سانڈ کیوں نہ بنا دیا گیا تاکہ وہ اپنی جنسی خواہش بلا روک ٹوک پوری کرتا رہتا ۔نہ اس کا حساب کتاب لیا جاتا نہ وہ کوئی فضول پابندی میں جکڑا ہوتا۔نہ اسے بیٹھ کر کھانے کا کہا جاتا۔نہ اسے مار کا اثر ہوتا نہ وہ اپنی تکلیف کا کسی سے ذکر کرتا۔جب ہمیں انسان بنایا گیا ہے اور ہمیں اچھے برے راستوں کی پہچان بھی ہے تو ہم اچھے کاموں کو اپنا کر اور برے کاموں کو چھوڑنے کی انتھک کوششیں کر کے ایک اعلیٰ انسان بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔

کیوں ہمارے اندر بغض،کینا،تعصب ،چغلی،غیبت اور اس طرح کی بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں۔اس معاملہ میں غیر مسلم اور مسلم دونوں ان برائیوں کو برائی سمجھتے ہیں ۔بس جو برائیوں کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اس دنیا میں اس کے اچھے نتائج ضرور دیکھ سکتا ہے ۔انسانوں کی رہنمائی کے لئے اس دنیا کو پیدا کرنے والے نے انسانوں میں ہی سے اپنے برگزیدہ رسول اور نبی بھیجے اور ان میں سے کئی پیغمروں کو آسمانی صحیفے اور کتب بھی عطا فرمائیں تاکہ انسانوں کو اپنے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد معلوم ہو سکے۔

مگر انسان اتنا کم عقل نکلا کہ اس نے تمام حقائق معلوم ہو جانے کے باوجود اپنے لئے مجموعی طور پر تباہی کا رستہ ہی اختیار کیا اور ان پیغمبروں میں سے کئی کو قتل کردیا۔یہی وجہ ہے کہ آج تک دنیا میں نیک لوگوں کی کمی رہی برے طریقوں کو اپنانے والے اکثریت میں رہے۔لیکن اب تو کوئی پیغمبر بھی نہیں آئے گا اور انسانیت کے لئے مکمل ضابطہ حیات بھی قرآن و سنت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

نیک بننے کے لئے شرط اول ایمان ہے جب تک کلمہ طیبہ پر ایمان نہیں تمام نیکیوں کا صلہ دنیا میں ہی مل سکے گا اور جب تک آخرت کا ہی یقین نہ ہو تو نیکی اور بھلائی کا بدلہ نہ ختم ہونے والی زندگی میں کیسے مل سکے گا؟اس لئے ایمان میں غیب پر ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔جب روز حساب کا یقین ہوگا تب ہی انسان برائی سے بچنے اور بھلائی کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔

انسان کتنی ہی گمراہی میں لتھڑا ہوا ہو جس وقت اس کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اب میں سیدھے رستے پر چلنا چاہتا ہوں اور گندے رستے سے بچنا چاہتا ہوں اور سچے دل سے وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اللہ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔اب وہ ایک کامیاب زندگی کا آغاز کرتا ہے ۔ایک غیر مسلم جب دنیا میں آنے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ دل سے اسلام کا مطالع کرتا ہے اور ہم جیسے کمزور ایمان والوں سے زیادہ بہتر اللہ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے۔

ہم تو مسلمان کے گھر پیدا ہوئے اس لئے مسلمان ہیں۔اب ہم نمازیں قائم کریں نہ کریں ہم مسلمان ہیں،جھوٹ بولیں تب بھی ہم مسلمان ہیں،رشوت لیں پھر بھی ہم مسلمان غرضیکہ ہمیں وراثت میں دین اسلام مل گیا۔اب ہم اس پر جس طرح چاہیں عمل کریں۔یہی ہماری بھول ہے۔ہم کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہم کتنا اپنے رب کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور کتنی اتباع اپنے پیارے رسولﷺ کی کرتے ہیں۔

ہم بسنت مناتے ہیں،ہم سالگرہ مناتے ہیں،ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں،ہم نیو ہیپی ائر مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ذرا سچے دل سے اس بات پر غور کریں ہمارا یہ عمل اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کو پسند آئے گا ؟دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم اپنی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین اسلام کی طرف آرہے ہیں۔اور سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں ۔ان لوگوں سے اسلام کی حقانیت معلوم کی جاسکتی ہے۔

ہمارے پیارے وطن پاکستان کو تو حاصل اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں پر ہم ایک اسلامی ریاست قائم کریں گے مگر ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن عمل شریعت کے مطابق آج تک شروع نہیں کیا۔اگر ہماری حکومت بڑی طاقتوں کے دباؤ سے نکل آئے اور پاکستان میں شرعئی قوانین کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کردے تو ہمارے ملک کا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔

اور ہم سب ایک اور نیک بننا شروع ہو جائیں گے۔اگر اب بھی ہم ہوش میں نہ آئے اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تیاریوں میں لگے رہے تو پھر دو قومی نظریہ کو بھول جائیں اور ہندووں کی غلامی میں آجائیں۔اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ جلد ہم سب کے سامنے آجائے گا۔سا ری دنیا کے مسلمان ایک اللہ ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک امت بن سکتے ہیں پھر ہمیں کافروں کی غلامی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ہم خواة مخواہ امریکہ سے خائف ہیں اور اس کے کہنے پر بھارت کو اپنا پسندیدہ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمران روائتی مسلمانی ترک کریں یا اس جماعت میں شامل ہو جائیں جو ملک کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں۔مسلم لیگی ہوتے ہوئے ملک کو اسلامی نظریہ پر نہ چلا سکنا نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے۔طالبان سے جس طرح مذاکرات شروع کر دئے گئے ہیں اسی طرح سود کے خاتمے،کرپشن کے خاتمے اور اسلامی قوانین کے خلاف ہر عمل پر سختی سے قابو پایا جائے ورنہ معاشرہ میڈیا کی خواہش پر گمراہی میں اتنا دور نکل جائے گا کہ پھر طالبان جیسی سوچ والے لوگوں کو پورے ملک میں پھیلنے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔

طالبان کا اصل مطالبہ شریعت کا نفاذ ہے جو ملک کے عوام کی بھی خواہش ہے۔کون مسلمان اس بات سے انکار کرے گا تمام مسلمان اس ایک نکتہ پر متحد ہو سکتے ہیں کہ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کے مطابق ملکی قوانین کو درست کرکے اس کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے۔ اللہ ہمیں ایک اور نیک بنائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :