تھر پار کر کا نوحہ

جمعہ 14 مارچ 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

تھر پار کر پاکستان کے صوبے سندھ کا وہ صوبہ ہے جہاں اب تک سب سے کم انسانی ترقی کے کام ہوئے ہیں اور صوبہ سندھ وہ صوبہ ہے جس کی سرزمیں سیاس سیاسی جماعت اور لیڈروں نے جنم لیا تھا جنھوں نے بعد ازاں پاکستان پر برسوں بار بار حکومت کی اور صوبہ سندھ تو انہی کا آبائی گھربھی ہے اور جب کہ اسی صوبے کے ایک شہر میں قحط اور فاقہ کشی کے نتیجہ میں ایک اور انسانی المیے نے جنم لیا۔

کئی ماہ سے بھوک ،فاقہ کشی کے با عث تھرپار کر کے دور دراز کے کچے ،گھانس پھونس کے بند و تاریک کمروں میں انسانی بچے والدین کے سامنے دم توڑتے رہے ،جب پہ انسان کا بچہ بھوک سے بلک بلک کر مرا ہو گا تو وہ کیا منظر ہوگا ؟ ان والدین کی دل کی کیفیت کیا ہو گی؟
اس بارے ہم میں سے کوئی نہیں جان سکتا۔

(جاری ہے)

ایک کے بعد دوسرا مرا، پھر تیسرا اور پھر انسان کے بچے بھوک سے بلک بلک کر مرتے رہے لیکن ان غر یب ا نسانوں کے بچوں کی موت کی خبر نے کسی کو ٹس سے مس نہ کیا یہ ممکن نہیں اور نہ اس بات پریقین کیا سکتا ہے کہ وہاں کے نمائندوں کو اس بد ترین صورت حال کی پہلے خبر نہ ہو۔

لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی عوامی نمائندے اور ایڈمنسٹریشن مکمل طور پران انسانی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں پاکستان کے جغرافیائی صورت حال سے واقف اچھی طرح جانتے ہیں کہ تھرپار میں کون لوگ اور کیسے رہتے ہیں اور کب سے ایسی حالت میں ہیں۔ن کی طرز زندگی کیسی ہے۔لیکن اگر کوئی واقف نہیں اور نہ ہی ہونا چاہتے ہیں تو وہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہیں۔

۔۔ان کی زندگی سے دلچسپی صرف ووٹوں کی حد تک اور وہ بھی ا نتخاب کے دنوں میں ہوتی ہے اور یا پھر کوئی سیاسی جلسہ ہو توان لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کی اور کوئی ضرورت نہیں ہے۔جاہل،غیر تعلیم یافتہ،کمزور اور دور دراز کے علاقوں کے باسیوں کی یہی اوقات ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ووٹوں کے فوائد کوئی اور ہی حاصل کرتا ہے اور ووٹ کی طاقت سے اسمبلیوں میں جاکر شہروں کی جدید زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ میڈیا کا کردار ہے کہ انہوں نے تھرپار کر میں جنم لینے ولے اس انسانی المیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ورنہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں اور عام آدمی کی ا خلاقی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سب بہرے،اندھے اور گونگے بن چکے تھے ۔اور سندھ کلچرل شو کی چکاچوند روشینوں میں غریبوں کے گھروں کے چراغوں کو گل ہوتا دیکھتے رہے ۔

ایک طرف انسانی جان بھوک اور فاقہ کشی کے باعث دم توڑ رہی تھی اور دوسری طرف اربوں روپے غیر انسانی کاموں کی نذر کر دیئے گئے ۔یہ محض حکومتی ،سیاسی اور انتظامی غفلت اور مجرمانہ فعل نہیں بلکہ بہ حثیت ایک پاکستانی قوم اور مسلمان ہونے کے ہمارے اخلاقی ا نحطاط کا بد ترین ثبوت بھی ہے اور ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی ہو گی کہ ہم تیزی سے واپس جاہلیت کے ظلم کے دور میں واپس جا رہے ہیں اور انسانی جان اور اس کے ا حترام کی کوئی وقعت نہیں رہی ہے ۔

اور ہم جمہوریت کے دور سے نکل کر باد شاہت کے دور میں داخل ہو رہے ہیں اس وقت دو مہاراجے ہیں جو سندھ اور پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان بھی باد شاہوں جیسا ہی ہے ۔پنجاب میں بھی یوتھ فیسٹیول کے نام پر سرکاری خزانے کی لوٹ مار جاری ہے اور ایک شہزادہ سیا و سفید کا مالک ہے عوامی ٹیکسوں کی مد سے فلاح وبہبود کی بجائے خودنمائی کی نذر کر دئے گئے ۔

بحر یہ ٹاؤن کے سربراہ نے بھی ا پنا قد اونچا کر نے کی کوشش کی ہے بڑی بڑی رقموں کی اسی طرح تقسیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہمارے ہاں کسی مضبوط نظام کے تحت ریاست کو نہیں چلایا جا رہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ان مرنے والے بچوں کو بچا لیا جاتا ۔ انسانوں کو بچانے کے منصوبوں کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جو قرآن پاک کا حکم بھی ہے ۔

زندہ انسان کو پاکستان میں حق اور رزق آسانی سے نہیں ملتا لیکن مرنے کے بعد اس کے نام پر جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اور شرمناک ہوتا ہے۔سندھ کے وزیر اعلیٰ کی ٹیم کے دورہ تھرپارکر کے موقع پر لذیز ترین کھانوں کی بھرمار کی تصاویر ہماری اخلاقی حالت کی منہ بولتی تصویر ہے۔تھرپارکر کے اس انسانی المیے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سندھ کے بیشتر دور دراز کے علاقوں میں ریاستی یا سیاسی نظام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔

اگر ہوتا تو لازمی طور پر ابتداء ہی میں اس کا سدباب کیا جاتا ۔اس واقعے کے بعد اب تک جو آنیاں جانیاں دیکھنے میں آئی ہیں وہ سب کچھ ہوا میں تلواریں مارنے کے مترادف ہے۔ایک ارب روپے کب خزانے سے نکلیں گے ؟ اور کب وہ ان متا ثرین تک پہنچیں گے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ سالہاسال سے ایک صوبائی حکومت ہونے کے باوجود ان متاثرہ علاقوں میں انسانی جان بچانے کے انتظامات کیوں نہیں کئے گئے تھے؟ آج بھی اگر ریاستی اداروں کے ذریعے سروے کرایا جائے تو بہت سے علاقوں کی ایسی ہی حالت سامنے آئے گی یہ درست ہے کہ فیوڈل نظام بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

لیکن آخر کب تک ان معصوم اور مظلوم انسانوں کو غلاموں کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا رہے گا۔اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں دور جہالت کہ یہ سیاہ نظارے کب نظروں سے اوجھل ہونگے۔پانچ ارب روبے کے امدادی اعلان سے صوبائی حکومت کی لاٹری نکلی ہے اور اس سے جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے نہ تو مسائل حل ہونگے اور نہ ان کی تقدیر بدلے گی ۔

اس سے پہلے بھی صوبائی حکومت پانچ سال تک وفاقی حکومت کے ساتھ رہی ہے لیکن کیا گیا ہے؟؟؟ دہائیوں سے حکومت کرنے کے باوجود تھرپارکر کے علاقہ میں انسانی ترقی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔اگر اب تک کچھ نہیں ہوا تو اب مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔المیہ یہ ہے کہ ریاستی نظام کے باوجود سینکڑوں انسانی جانوں کی ہلاکت کی کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی جدید رونقیں شہروں میں ملتی ہیں اور دور دراز کے اور پسماندہ علاقوں میں صرف ظلم ہوتا ہے اور المیے جنم لیتے ہیں عام آدمی کی اخلاقی حالت جب بگڑ جاتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کے اثرات معاشرہ پر اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اب ایسا پاکستانی معاشر ے میں ہو رہا ہے۔مادہ پرستی اور خودپرستی نے سب کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

کیا آدمی اور کیا سیاسی، سبھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔پورے سسٹم کو جام کر کے انفرادیت کی نذر کر دیا گیا ہے اگر دور حاضر کی انسانی ترقی کی رفتار اور اس کی کامیابیوں کو دیکھا جائے توعقل حیران رہ جاتی ہے کہ کس طرح کن کن و یران علاقوں کو بارونق شہروں میں بدلا گیا ہے اور کیسے کیسے صحراؤں کو ریگستانوں میں تبدیل کیا گیا اور بد قسمتی سے ہمارے ہاں حالات کچھ خوشکن نہیں۔

کالاباغ ڈیم کا قومی منصوبہ آج بھی نااہل حکمرانوں کی نا اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو تمام صوبوں کے مفاد میں ہے۔اب ٓنے والے دنوں میں جو کچھ بھی ہو گا اس سے براہ راست عام آدمی،سفید پوش ہی متاثر ہو گا۔ اور ہو رہا ہے۔غربت کے سانحے جو جنم لے رہے ہیں وہ بھی ہم سب کی بے حسی اور مروت کے باعث ہی ہو رہے ہیں۔ایک دوسروں کی مخالفت کرنے کی بجائے مل کر کام کرنا ہوگا۔

واحد حکومت ان مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔عام آدمی کی فلاح و بہبود،اس کی صحت، تعلیم ، عدل کی فراہمی اور کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی ایسے مسائل کا حل ہی کسی حکومت کی کامیابی ہوسکتی ہے۔تھرپارکر کا انسانی ہلاکتوں کا یہ المیہ معمولی نہیں،اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔اور ان سے بچنے کی منصوبہ بندی کرنے اور ان پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔اس لئے حقیقت یہی ہے کہ تھرپار کے انسانی المیے کی ذمہ دار ریاست،سیاست اور نظام حکومت سبھی ہیں اس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے وقتی اور عارضی سسٹم کو ترک کرکے انسانی احترام اوراقدار کو اپنانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :