درالحکومت چیخ رہا ہے

بدھ 12 مارچ 2014

Usama Khamis Minhas

اُسامہ خامس منہاس

سب سے پہلے تو جناب وزیر اعظم پاکستان ،وزیر داخلہ،آئی جی اسلام آباد اورچیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وُہ اسلام آبادسانحے کے نتیجے میں مستفی ہو جائیں۔درد کی اُڑان اندازے سے باہر ہو چکی ہے ،کٹھن وقت سے سامنا کرنا ہر پل دُشوار ہو رہا ہے ۔جب پیاروں کی شکلیں نم آنکھوں کی زینت بنتی ہیں تو پھر حواس قائم نہیں رہتے اور آنکھیں دل ودماغ ساتھ چھوڑ کر جسم سے علیحدگی حاصل کر کے اپنا دُکھ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔

خون ِدل سے تحریر کر رہا ہوں اُن دردمندان کی داستان جن کے گھروں میں قیامت کا منظر ہے۔پھر اُن کا ذکر کرتا ہوں جو انسانیت کی شکلیں بگاڑنے پر مضمر ہیں،جو دل نہیں رکھتے ،جو نہ جانے کونسی جنت اور حوص کے شکاری ہیں اور ایسا جال پھیلا کر نہ جانے کس قسم کی طاقت کے ہاں سچے بننا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

مجھے لگتا ہے کہ میرا قلم بھی میرا ساتھ چھوڑ جائے گا اگر میں نے اُن بے حس افراد کی سفاکیت کا قصہ شروع کر دیا ۔

کبھی غصہ اور کبھی درد کے بادل ہر خاندان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ماں بیٹے کو گھر سے نکاتے وقت کئی سو نصیحتیں کرتی ہے کہ بیٹا دیکھ بھال کہ باہر جانا اور بیٹے کا چہرہ نم آنکھوں سے دیکھتی اور اپنی سوچ جو موجودہ حالات کے پیش نظر پیدا ہوئی اُس کو سوچ کے ڈر جاتی ہے۔دیکھئے نہ موت نے اپنا کھاتہ کھولا بھی تو غریبوں ،درد مندوں ،شریفوں ،اہل اورنایاب لوگوں کے لیے ۔

روح کا قرار چھننے والوں کو قدرت کا قانون معلوم نہیں۔یہ وُہ لوگ ہیں جو حیوانیت کی کسی گندی قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو انسانیت کا ناحق خون بہاتے ہیں۔نہ جانے کس حیوان صفت ماں کی اولاد ہیں جس نے اپنی تربیت میں اِنہیں صرف بدی ہی سیکھائی ہے ۔فرمایا ”جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اُس نے ساری انسانیت کا قتل کیا“۔پھر سوچئیے کہ ایسوں نے کتنی ہزاروں لاکھوں کائناتوں کا قتل کیا ہو گا۔

دُکھ اور آلام کو ایک طرف رکھ کے اِس زمین جس پر یہ قتل وغارت گری ہوئی ہے اُس کے محافظوں کا ذکر بھی تو لازمی ہے نہ تو سُنیے پھر ایف8کچہری اسلام آبادمیں دو حملہ آور داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی،دستی بم کا استعمال بھی کیا۔کچہری میں 67پولیس اہلکار ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں جن میں سے 47اہلکار اُس روز ڈیوٹی پر موجود تھے ۔سوال یہ ہے کہ ایک تو یہ 20اہلکار ایک ہی روز کیوں غیر حاضر تھے اور جو حاضر تھے اُنہوں نے جوابی فائرنگ کر کے اِن دو حملہ آوروں کو ڈھیر کیوں نہ کیا؟45منٹ یہ حملہ آور انسانیت کا قتل عام کرتے رہے تو سارے شہر کے قانون قائم کرنے والے ادارے کہاں تھے ؟اسلام آباد کی سڑکیں اِس قدر وسیع ہیں کہ پولیس جلد موقع پر پہنچ سکتی تو پھر وُہ کیوں نہ پہنچی؟وُہ دارلحکومت میں آئے کیسے ،اسلحہ کہاں سے آیا ؟ایجنسیوں نے اطلاح کیوں نہ دی اور ایکشن کیوں نہ ہوا؟ملزمان بھاگ گئے اور پکڑے کیوں نہ گئے وُہ بچ کیسے گئے؟ یہ وُہ سوال ہیں جو حکومت سے پاکستان کا ہر شہری پوچھ رہا ہے اب جواب دینا حکام کی ذمہ داری ہے ۔

پھرستم ظریفی دیکھئے کہ ایک حملہ آور ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں دو یا تین افراد کے علاوہ ایک پولیس والا بھی موجود تھا جس کے ہاتھ میں پستول تھا مگر اُس نے جج صاحب کو بچانے کے لیے کچھ نہ کیا اور حملہ آور جج صاحب کو مار کر چلتا ہوا۔اِس وحشت کی زدمیں کئی پھول کلیاں اور کئی چراغ ِخاندان گل ہوگے۔مگر افسوس کہ قانون کے کراون اپنے کندھوں پر سجائے افراد ایک گھنٹے کے بعد تشریف لائے۔

قیامت صغری کئی آنکھوں نے دیکھی وُہ آنکھیں دہشت سے دو چار ہیں اور وُہ جن کے دل قیامت سے قبل ہی قیامت دیکھ کر لرزاں ہیں۔اِس قیامت کے نتیجے میں 11افراد جاں بحق ہوئے اور25 سے زائد زخمی ہوئے ۔اِس واقعے کا ذکر آتا ہے تو فضہ ملک کا ذکر خود اپنا سر اُٹھاتا نظر آتا ہے کہ وُہ پھول سی بیٹی جسے ابھی اپنے پیشے اور خواب کی تعبیر میں دوسرا ہی دن ہوا تھا کہ اُس کے کالے کوٹ کی تعظیم کا جنازہ نکال دیا گیا۔

اصل میں انسانیت کے دُشمنوں نے ایک فضہ ملک نہیں بلکہ فضہ ملک کے ذریعے ہونے والے تمام اچھے کاموں ،انسانیت کی خدمت کے ارادوں ،والدین اور پیشے کی خدمت ،قوم کی عزت ،اور آنے والی نسل کو بھی خاک کر دیا۔ذرا غور کریں کہ زندگی اور موت دینارب العالمین کا کام ہے جو صرف رب کو ہی شبہ دیتا ہے تو اب وُہ لوگ جنہوں نے اسطرح کی سفاکیت کی وُہ اپناادراک کر لیں کہ انہوں نے کس کے کام میں ہاتھ ڈالا ہے۔

اتنا بڑا سانحہ ہونے پر رد عمل کیا ہوا تو جواب صفر ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں ایسے سانحوں پر ذمہ دار حکومت کے اعلی عہددار عہدہ چھوڑ دیتے ہیں مگر یہاں تو کبھی پہلے ایسی تاریخ نہیں بنی تو اب کیسے بنے گی ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے اُن اہلکاروں کو جو ڈیوٹی پر موجود تھے یا نہیں تھے کو مکمل طور پر ملازمت سے فارغ کر کے اُن پر مقدمہ چلایا جائے اور اُن کی پنشن بھی بند کی جائے۔

آئی جی اور پولیس کے بڑے عہددار فارغ کیے جائیں ،وزیر داخلہ بھی عہدہ سے برطرف ہونے چاہئیں جو نشان عبرت ٹھہریں۔افسوس ہے ایسی گورنمنٹ پہ جو انتہائی بوسیدہ ہے جو مکمل طور پر غیر منظم ہے اور انتہائی کمکوس ہے کہ جو امن ہی فراہم نہیں کر سکتی تو پھر وہاں روٹی کپڑا اور مکان تو بہت دور کی بات ہیں۔وزیر اعظم صاحب قوم آپ سے جواب مانگ رہی ہے قوم کو وُہ افراد واپس کیجئے یہ آپکی حکومت میں ہوا ہے اور اِس کے ذمہ دار آپ ہیں اُن خاندانوں کو اُن کے پیارے واپس کریں۔

وزیرداخلہ جواب دیں کے اِس طرح کے سانحے کے لیے آپکو یہ منصب دیا گیاتھا؟آئی جی صاحب اُن کی پولیس اورایجنسیاں کہاں تھی ،کیا آپ کو کراون قتل و غارت اور قانون کی عزت کی نیلامی کے لیے لگائے گئے تھے اور غیر ذمہ داراورڈرپوک پولیس اہلکار جو موقع پر موجود ہوتے ہوئے بھی چھپ گے وُہ بھی قوم کے مجرم ہیں جو قوم کا کھا کہ حرام کرتے ہیں۔یہی سوال فضہ ملک ،رفاقت اعوان اور دوسرے محرومین کی قبریں کر رہی ہیں اور یہی سوال درالحکومت اسلام آباد چیخ چیخ کر کر رہا ہے۔ہاں اگر تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے تو شرم سے ڈوب مرو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :