عوام۔ حکمران اور ابلاغ

بدھ 12 مارچ 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑتی ہے۔قوم کی صحیح سمت کا اندازہ افراد کی درست سمت سے ہوتا ہے۔لہذا قوم بنانے سے پہلے افراد بنائے جاتے ہیں اورافراد کے بننے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ حکومت وقت اورذارئع ابلاغ کی اہمیت مسلم ہے۔ دونوں عوامل کی باہم اثر انگیزی انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر و ترقی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

جبکہ دونوں عوامل کا منفی کردار افراد و قوم کے بگاڑ کا اولین سبب ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جن افراد یا قوموں کو سمبھالا گیا وہ آ ج دنیا میں زندہ و جاوید قوموں کی فہرست میں صف اول پر ہیں اور جنہیں نظر انداز کیا گیا وہاں خانہ جنگی اور جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی برائیوں نے جنم لیا۔

(جاری ہے)

۔۔ اسی قسم کی کیفیت کچھ ہمارے یہاں بھی ہے۔14اگست1947 کو نظریے کی بنیاد اور لا زوال قربانیوں کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر طلوع ہوا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح حصول کے ابتدائی سال میں انتقال فرما گئے۔ملک ابھی نشو نماء کے ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ تحریک پاکستان کے سرگرم کردار اور پہلے وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران گولی مار کر شید کر دیا گیا۔اگر چہ سیکوریٹی ادارے کی جانب سے گولی مارنے والے شخص کو بھی آن دی سپاٹ ہلاک کر دیا گیا تھا مگر نوزائدہ مملکت اور اسکے باسیوں کے خلاف سازش کا یہ باقائدہ آغاز تھا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں آنے والی قیادت نے ملک وقوم کی تعمیر و ترقی کوپس پشت ڈال کر اقتدار کو اولین ترجیح دی جسے کے نتیجے میں ملک میں الیکش کی بجائے سلیکشن ہوتا رہا اورادارے تباہ ہوتے رہے جس کی وجہ سے قوم صحیح سمت نہ ملنے کے باعث بجائے بننے کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور حکمران اپنے اقتدار کی کھینچا تانی میں قوم کو رتوندتے ہوئے آگے نکلتے رہے۔

یہی بنیادی وجہ ہے کہ آج یہ طبقہ اقتدار ہوس اور مراعات میں بہت آگے اور قوم بہت پیچھے کہیں رہ گئی ہے۔
برسوں پہلے مرتب کئے گئے ضابطوں پر حکمران آج اُسی طرح کاربند ہیں اور اُنکی اقتدارکی ہوس آج بھی اُسی جوبن کے ساتھ قائم ہے جبکہ اقدار کا حصول تاحال ناپید ہے ، یہی وجہ ہے کہ پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار قوم اب مذید massacreکی طرف بڑہ رہی ہے جبکہ حکمران اور ادارے ملک کی بااثر طاقت کے طور پر اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔

ملک کے ساتھ کیا ہورہاہے۔قوم کس طرف جارہی ہے۔آئندہ نسل کو کیا دینے جا رہے ہیں اسکی کسی کو فکر نہیں ہے۔چھیاسٹھ برس سے بکھری قوم کو آج بھی یکجا کرنے یا سمیٹنے کے اقدامات نہیں کئے جارہے۔ریاست کا بااثر ستون اوردور حاضر کی بااثر طاقت میڈیا جسکا قوم بنانے میں خاطر خواہ کردار ہوسکتا ہے، بھی اپنی ریٹنگ کیلئے قوم کو دوسروں کے غیر اخلاقی کلچر میں دھکیل رہا ہے۔

مارننگ شو سے لیکر نیوز بلیٹن تک ، بچوں کے پروگرامز سے لیکر ڈراموں تک سب پاکستانیت کی بجائے غیرملکی تہذیب سے متاثرہ دکھائی دیتے ہیں اور عوام جب یہ سب کچھ صبح سے رات تک دیکھتے ہیں تو اسکے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔غریب کی جھونپڑی سے لیکر محلات تک سب اپنی اپنی حیثیت اور پہنچ کے مطابق مغربی تہذیب اور غیروں کی ثقافت کے متاثرین ہیں۔

شادی بیاہ کی تقریب سے لیکر خالصتا مذہبی تہوار وں تک بھی غیر تہذیبی اثر نمایاں ہے۔ سرکاری یا نجی سطح پر کوئی تقریب ہو، سیمینار ہو یا ثقافتی شو، تہذیبی اقدار کے نام پررقص و سُرور کی محافل انعقاد لازمی امر ہے۔جس پرملک کے نام نہاد دانشور اور روشن خیال طبقہ دوسروں کی گندی و کھوکھلی تہذیب میں سانس لینا فخر سمجھتے ہیں۔ ا
دوسری جانب گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں فرقہ واریت،لسانیت اور اقربا پروری،کا بیج اس سلیقے سے بویا گیا ہے کہ کہ آج ہر کوئی ان مذکورہ حدود میں مقید ہے۔

ہر فرد کی سوچ میں فرقہ واریت، لسانیت اور قومیت اتنی رچ بس چکی ہے کہ کوئی ان حدود سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ شادی بیاہ سمیت کوئی بھی معاملہ ہو یا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو۔ اُسے مذہبی حسب نسب اور لسانیت کی کسوٹی میں پرکھا جاتا ہے اور بچی کچی کسر اقربا پروری میں پوری کی جاتی ہے۔اور ان تمام عوامل میں انتہا پسندی لازمی امر ہو چکا ہے کوئی مذہبی ہے تو انتہا کا مذہبی اور کوئی لبرل ہے تو انتہا کا لبرل ۔

۔۔۔۔۔لبرل ادارے مسٹر پیدا کر رہے ہیں اور مذہبی ادارے مولوی ۔ پھراپنے اپنے اداروں کی بھٹی میں پک کر یہ افراد اتنے راسخ العقیدہ بنا دیے جاتے ہیں یا انکی ذہن سازی اس طریقے سے کی جاتی ہے کہ مسٹر اپنے حریف مولوی کو قبول نہیں کرتا اور مولوی مسٹر کو برداشت نہیں کرتا۔ یہی حال قومیت کا ہے ۔سندھی، پنجابی، سرائیکی،ہزارہ، پشتون اور اُردو بولنے سب علیحدہ علیحدہ پہچان کو قابل فخر جانتے ہیں۔

ہر قوم دوسری قومیت سے نہ صرف فاصلہ رکھتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلا ف سوچتے ہیں۔
قارئین !!!یہ سب کچھ اُن مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مہربانی ہے جنکا وجود افراد کے درمیان اسی فرق سے قائم ہے اور یہی فرق ان جماعتوں کے زندہ رہنے کی بڑی وجہ ہے۔کیو نکہ یہ فرق اگر ختم ہو جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سانس لینے والے تمام جماعتیں دم توڑ دیں گی جوکہ ایسا وہ کبھی ہونے نہیں دیتیں۔

۔بظاہر یہ تمام جماعتیں اپنے آپکو قومی دھارے کی جماعتیں گردانتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جب کبھی بھی ان جماعتوں پر کوئی مشکل وقت آتا ہے یا کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہیں تو یہ تمام جماعتیں نام نہاد قومی جماعت کے خول سے فوری باہر نکل آتی ہیں اور اپنا اصلی مذہبی یا لسانی کارڈ بھر پُور طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔اوراس میں دو رائے نہیں کہ جس دن ان جماعتوں کا عوام میں قائم کردہ یہ فرق ختم ہوگا اس دن کوئی کوئی مولوی اور کوئی مسٹر باقی نہیں بچے گا۔

کوئی سندھی اور کوئی اردو اسپیکنگ نہیں رہے گا۔ کوئی پنجابی اورسرائیکی نہیں ہوگا اور کوئی ہزارہ یا پشتون نہیں رہے گا۔۔۔۔۔ بلکہ اس دن انکی پہچان صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہوگی ۔
عوام کے درمیان قائم کردہ اسی فرق کی بنا پر آج ملک کا ہر فرد دوسرے فرد سے کھچاوٴ میں مبتلاہے۔ ایک علاقہ یا قبیلہ دوسرے علاقے یا قبیلے سے اُلجھا ہوا ہے اور ایکدوسرے کیخلاف اپنا حق چھینے جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔

دوسری جانب ہر شہری کو حکومت و حکومتی اداروں سے اورحکومت و حکومتی اداروں کو شہریوں سے، عوام کو پولیس سے اور پولیس کو عوام سے کسی نہ کسی مسئلے پرایک دوسرے سے زیادتی کی شکائت رہتی ہے ۔ ریاستی ادارے حکومت سے نالاں ہیں تو حکومت اداروں کی حدود کا شکوہ کرتی ہے۔ فوج، حکومت سے فاصلہ رکھتی ہے تو حکومت فوج کو سوتیلا سمجھتی ہے یعنی ہر کوئی تناوٴ کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔

۔۔کرپشن کا یہ حال ہے کہ ملک کے چپڑاسی سے لیکر وزیر اعظم تک سب کرپشن کے بیمار ہیں ۔ سرکاری دفاتر میں چپڑاسی سے لیکر افسران تک اول تو آفس آنا گوارہ نہیں کرتے اگر بھولے بسرے کبھی آ بھی جائیں تو کام نہیں کرتے۔ اگر کسی کا کام کرنا بھی پڑتا ہے تو اُسکے الگ سے پیسے ہوتے ہیں کیونکہ تنخواہ تو صرف آفس آنے کی ہوتی ہے کام کرنے کی نہیں۔ صحت جیسے حساس شعبے کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹرز اسپتالوں میں کم اپنی پرئیویٹ کلینکس میں زیادہ دستیاب ہوتے ہیں اور میڈیسنز ان کمپنیوں کی تجویز کرتے ہیں جوگاڑی سے لیکر بیرون ملک کی سیر تک کا انکے لئے انتظام کرتی ہیں۔

اسطرح انہیں دوائیوں کی معیاد اوراثرات کے برعکس اپنے کمیشن سے غرض ہوتا ہے۔۔۔ تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ یہاں اساتذہ کی عدم دستیابی کی بنا پرپڑہائی کم شادی بیاہ کی تقریبات زیادہ ہوتی ہیں۔سرکاری صحت اور تعلیم کی اسی زبوں حالی کی بنا پر ہر شخص پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔۔۔
قارئین !۔حکومت کا کام ملک کیلئے سود مند قوانین بنانا اور ابلاغ کا کام قوم کی ذہن سازی کرنا اور غلط صحیح کی نشاندہی کرنا ہے۔

آغاز ہی میں اقتدار کی بجائے قوم بنائی گئی ہوتی تو ملک صحیح سمت میں ہوتا،ادارے مظبوط ہوتے۔قوانین پر عمل درآمد ہوتا اور مہذب معاشرہ بنتا۔۔۔طالبان کا خاتمہ ہو یا دہشتگردی کی روک تھام۔ کرپشن سے چھٹکارہ ہو یا اخلاقیات کا تحفظ، کتنے ہی طاقتور آپریشن کر لیں یا جدید قوانین ہی کیوں نہ بنالئے جائیں، قوم کو سمیٹے بغیر اور اسکی راہ کا صحیح تعین کئے بغیر ان کا تدارک کسی طور ممکن نہیں ۔

اسکے لئے ضروری ہے کہ حکمران اور آج کی اثر انگیز طاقت ا بلاغ باہمی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کو اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کی از سر نو نشونماء کریں۔اسطرح سے قوم بھی بن جائے گی ،ملک بھی ببچ جائے گا اور تہذیب بھی رہ جائے گی اور اگرملک میں پائی جانے والی تمام تر خُرافات پر حکومت کی تھپکی اور میڈیا کے چسکے جاری رہے تو ہم اسی حال میں رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :