دہشت گردی اور غیر روایتی انداز

پیر 10 مارچ 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

مذاکرات کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ،اس کے باوجود دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔یہ خوفناک صورتحال امید کی آخری شمع بجھانے کے درپے ۔عالمی سچائییہ ہے کہ امید ختم نہیں کی جانی چاہیے ۔اس بنا پر دہشت گردی کے روایتی حل کے بجائے اتمام حجت کے طور پر سہی غیر روایتی حل کی جانب بھی توجہ دی جائے ۔یوں دہشت گردی کے نئے پہلو سامنے آسکتے ہیں ۔

ان نئے پہلوں سے ان کے تدارک کی سعی کی جاسکے گی ۔ آج جب طالبان چیخ رہے ہیں کہ کچہری جیسے بم دھماکے ہم نے نہیں کیے۔ پاکستانیوں کی اکثریت انکے دعووں کو تسلیم نہیں کرتی ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ طالبان بھی ملوث رہے ہیں، اورہمارے سیکوریٹی اداروں کی تحقیقات کی تان ہمیشہ طالبان پر ٹوٹتی رہی ۔دوسری کچھ طالبان کی حماقتیں ہیں کہ اپنی دھاک بٹھانے انہوں ہر برائی اپنے گلے میں اعزاز بنا کر باندھ لی ۔

(جاری ہے)

اب طالبان اپنی لاکھ صفائیاں پیش کریں ،الزام ان پہ ہی جاتا ہے۔طالبان نے خود کو بستہ الف کا مجرم بنا دیا ہے ، ایک بار جس سے جرم سرزد ہوجائے تفتیشی کا ذہن اسی جانب جاتا ہے ۔جب تک طالبان کھلم کھلا اپنی صفائی نہ پیش کریں تب تک الزامات ان پے ہی دھرے جاتے رہیں گے ۔اب ”بد سے بدنام برُا“والی بات ہے ۔اس انداز میں سوچنا روایتی انداز ہے ۔

اب تک ہم نے یوں ہی سوچ کرساری تحقیقات کیں ہیں مگر دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی ۔اب اس روایتی انداز کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ طالبان نے بھی اب اپنا موقف بدلا ہے، اب وہ ہر بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔یہ ان کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی ہے ۔جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔وفاقی وزیر داخلہ کا یہ مطالبہ کہ جن لوگوں نے ذمہ داری قبول کی ہے طالبان ان کا سراغ لگائیں۔

بظاہر عجیب سا بیان ہے مگر مذاکرات کے ماحول کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ مطالبہ بڑا وزنی دیکھائی دیتا ہے، طالبان مذاکرات کے ایک فریق ہیں ۔اور دوطرفہ جنگ بندی میں بم دھمکاکوں کا بندہونا یہ طالبان کی ذمہ داری ہے ۔اگر طالبان کا نام استعمال کرکے کوئی تیسرا گروہ دہشگردی کرتا پھرے تو اس کا تدارک بھی طالبان کو کرنا ہوگا ورنہ طالبان اور دہشت گردوں میں تفریق کرنا مشکل ہوگی۔

طالبان پاکستان کے شہری ہیں تو انہیں اب خود کو محب وطن ثابت کرانا ہوگا ۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انہیں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا ۔دوسری جانب حکومت اپنا روایتی انداز تحقیق بھی بدلے تاکہ تیسرے دشمن کو تلاشا جا سکے،دنیا کی خطرناک ترین جنگ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں لڑی گئی ۔جس میں عالمی طاقت امریکا نے 40اتحادیوں کو کیل کانٹوں سے لیس کرکے شامل کیا ۔

دوسری جانب طالبان اور القاعدہ نے بھی دنیا بھر کے جہادیوں کو افغانستان بلا لیا ۔امریکہ اپنی حماقتوں سے اس جنگ کو پاکستان دھکیل لایا ۔یوں افغانستان کی جنگ پاکستان میں داخل ہوگئی ۔اور پاکستان صف اول کا اتحادی ہونے کی پاداش میں لہولہان ہوگیا ۔امریکا کا بال بیکا، نہ طالبان کو خراش آئی، مفت میں ہماری درگت بن گئی ۔
اب اس جنگ کو واپس افغانستان دھکیلانا ہوگا ۔

یہی ہماری سیاسی وعسکری قیادت کا امتحان ہے ۔اس جنگ کو واپس دھکیلنے کے لیے ہمیں اپنی روایتی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔روایتی سوچ ہی بدل کرہم اس جنگ کو واپس افغانستان بدر کرسکتے ہیں ۔اگر جنگل کا کوئی بھیڑیا آبادی کا رخ کرلے ،اور کسی انسان کو چیرپھاڑ جائے تو ایسے حادثات کے تدارک کے لیے دو چار ماہر شکاریوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی جنہیں جنگل کا رخ کرنا ہوگا وہ جا کرخونخوار بھیڑیے کا قلع قمع کردیں گے ، اس طرح آبادی کی جان ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے گی۔

میت پر بیٹھ کررونے سے جنگل کا بھیڑیا کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔ہم ماتم کرکے یہ سمجھ رہے کہ حملہ آور ختم ہوگیا حملہ آور تعاقب اور تدارک سے ختم ہوتا ہے۔مذاکرات جنگل تک جانے کا راستہ ہیں اور اصل دشمن تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں ۔یہ سلسہ جاری رہنا چاہیے اور روایتی انداز بدل کر یہ بھی لازمی دیکھا جائے کہ طالبان کے علاوہ ایسی ملک دشمن سرگرمیوں میں اور کون ملوث ہے؟ اور کس کے اشاروں پر یہ خون خرابہ ہورہا ہے ۔

دھیان رہے کہ انڈیا نائن الیون سے قبل بھی پاکستان میں بم دھماکے کرانے میں کھلے عام ملوث رہا ہے ۔بھارت کی پاکستان سے دشمنی کا 53سالہ ریکارڈبھی دہشتگردی سے لبریز ہے ۔اور نائن الیون کی جنگ کو شروع ہوئے تیرہ سال بیتے ہیں ۔
جب سے دہشت گردی کے خلاف امریکاکی جنگ شروع ہوئی ہے تب سے اب تک روایتی دشمن بھارت کو ہم نے سرے سے ہی فراموش کردیا ۔

2001سے لے کر اب تک تیرہ برس میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنے ،اس سے راز اگلوانے کی کوئی بڑی خبر کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوئی ،پڑوسی ملک افغانستان میں بھارت کے تھوک کے حساب سے قونصل خانوں کی موجودگی ،تعمیراتی ٹھیکوں اور ان کے سیکورٹی عملے کی شکل میں بھارتی فوج کی عسکری معاونت یہ تمام کڑیاں تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں ۔

لیکن یوں لگتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو سرے سے فراموش کردیا ہے ۔ظاہر ہے روایتی دشمن اپنا انتقام فراموش نہیں کرتے ۔امن آشا جتنی بھی پرامن ہو، ازلی دشمن کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔یہ اہم پہلو کیوں فراموش کردیا گیا ہے ۔جس بھارت نے 53برس تک دشمنی مول رکھی ۔ضد ،انا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ،انتقام در انتقام جس کی ریت رہی ،جس نے ہر بار پاکستان کو زچ کیے رکھا،تین جنگیں پاکستان پر مسلط کیں، پہلے دن سے ہی جس نے پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا ۔

وہ بھارت پچھلے تیرہ سال سے ہمیں کیوں فراموش کرگیا ،کیا بھارت نے ہمیں معاف کردیا ۔یہ تمام سوالات اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہیں تاہم دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے بھارت کو سرے سے ہیبھلا دیا ہے
کیا ہم نے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرلیا ہے؟ کیا ہمارے تمام معاملات بھارت سے طے پا گئے ہیں ۔
2001سے قبل ہماری فوج کی جنگی مصروفیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔

اور فوجی افسر سرکاری محکموں میں تعینات ہوا کرتے تھے ۔اب ہماری فوج بھارت کی طرح مسلسل حالت جنگ میں ہے ۔پہلے افغانستان سے متصل ہماری سب سے بڑی2ہزارپانچ سو کلومیڑطویل سرحدفوجی پہرے سے خالی تھی ۔آج وہاں ڈیڑھ لاکھ فوجی سخت پہرے پر ہیں ۔یہ وہ سرحد ہے جب ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں تو ہماری پیٹھ مکمل خالی تھی ۔تب جنگ میں ہماری مکمل توجہ بھارت کی جانب مرکوز رہی ۔

آج ویسی صورت حال نہیں ۔بھارت کو کبھی گوارا نہیں کہ پاکستان اسے ہی دشمن سمجھے اور مکمل توجہ اس کی جانب کرے ۔اس لیے بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور نہ امریکا کو خالی ہاتھ جانے دینے پے رضامند ہے ۔ہمیں افغانستان سے آئی جنگ کو دیس نکالا دینا ہوگا ۔اس کے لیے روایتی انداز بدلنا ہوگا ۔اور دہشت گردی میں ملوث تیسرے ہاتھ کو بھی تلاش کرنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :