ایشیا کپ 2014ء

پیر 10 مارچ 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

چلو جی ، ہفتے کے دن ” ایشیا کپ“ کی رونق بھی ختم ہوئی، کینیڈا میں میچ دیکھنے کے لئے رات کو تین بجے اٹھنا ہوتا تھا اور جو بھی مصروفیت خلاف معمول ہو، اُس کا نیا پن تفریح کا باعث بن جاتا ہے ،اوپر سے ملّی جذبات اور شاہد آفریدی کے چوکوں چھکوں نے ہماری تفریح کو خالص دیسی گھی کا بھگار لگا دیا تھا، یہاں تک کہ ہر پاکستانی خوب چٹخارے لے لے کر شاہد آفریدی کے چوکوں چھکوں کا ذکر ،کر کر کے مزے لیتا نظر آتا تھا۔


کرکٹ کے کھیل میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی بڑے کھلاڑی کچھ مدت کے لئے آوٴٹ آف فار م ہو کر دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کے میدان میں ہیرو سے زیرو ہو جاتے ہیں۔کچھ مدت سے شاہد آفرید ی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا،بلے باز کی حیثیت سے اُن کی کار گزاری ایک سوالیہ نشان بن چکی تھی۔

(جاری ہے)

لیکن ایک اچھے بالر او اپنی قابل تعریف فیلڈنگ کی وجہ سے وہ ٹیم کی ضرورت بنے رہے ہیں۔

پھر اچانک ہی انہوں نے انڈیا اور بنگلہ دیش کے خلاف کم سے کم بالوں کے ساتھ ٹیم کے گلے میں فتح کے ہار ڈال کر پاکستانیوں کو یہ خوش آئند خبر سنائی کہ بلے باز کی حیثیت سے بھی وہ واپس اپنی اورجنل فارم بوم بوم آفریدی میں آچکے ہیں ۔
شرجیل خان، شہزاد اور حفیظ بلا شبہ اچھے کھلاڑی ہیں،لیکن ایشیا کپ کے فائنل میں انہوں نے بہت مایوس کیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ہم ایشیا کپ اُن کی وجہ سے ہارے ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔

فائنل میں خان پانچ ، شہزاد پانچ اور حفیظ کا تین رن بنا کر آوٴٹ ہو جانا ناقص کار گزاری کی بد تریں مثال اور ایک نا قابل ِ فراموش حادثہ ہے۔اِِس کے علاوہ وکٹ کیپر سے جو ایک کیچ چھوٹا ہے۔اس پر بھی جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔خیروکٹ کیپنگ تو ہمارے ہاں کافی مدت سے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔جب کئی بال وکٹ کیپر کی پہنچ سے باہر اوپر ہی اوپر سے گزر جاتے ہیں تو اس وقت بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وکٹ کیپنگ کے لئے کسی دراز قد کے کھلاڑی کو رکھا جانا چاہیے۔


# یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل کے میدان میں دو ٹیموں میں سے جیتنا تو صرف ایک ہی ٹیم نے ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ اعزاز بھی کوئی کم نہیں ہے کہ ہم اپنے خلاف اتنی سازشوں ( امپائر کی جانب داری ) کے باوجود فائنل تک پہنچے ہیں۔
بہر کیف، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ خان، شہزاد اور حفیظ کا اتنے کم رن بنا کر آوٴٹ ہو جانا ایک حادثہ ہے۔لیکن میں شاہد ّفریدی کو کھیلنے کا موقعہ نہ ملنے کو حادثہ نہیں کہہ سکتا۔

ایسے موقعے پر جب کہ ہم رن بنانے میں بہت پیچھے رہ گئے تھے، شاہد آفریدی ،جو کہ تیز تریں رن بنانے کا اچھا خاصا ریکارڈ رکھتے ہیں، کو مصباح الحق سے پہلے کھلایا جانا چاہیے تھا۔ جب شاہد آفریدی فارغ ہو کے جا چکے ہوتے تو پھر مصباح الحق ، فواد عالم اور عمر اکمل کھیلتے توہم شاہد آفریدی کی تیز رفتای سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کس نے کتنے رن بنائے ؟یہ نہیں دیکھتے کہ کتنے بالوں سے بنائے ؟ہمارے ابھی کافی کھلاڑ ی باقی تھے کہ پچاس اوّر ختم ہو گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمر اکمل اور فواد عالم بہت اچھا کھیلے ہیں۔لیکن اگر ان سے پہلے شاہد آفریدی کو موقعہ دیا جاتا تو وہ اپنے پندرہ بیس یا پچیس تیس بالوں کے ساتھ جو رن دیتے ، ان سے ہماری فتح کے امکانات خاصے روشن ہو سکتے تھے۔لیکن یہ باتیں کوئی متحرک کیپٹن ہی سوچ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :