بات ہے رسوائی کی!!

ہفتہ 8 مارچ 2014

Munawar Rajput

منور راجپوت

بے نظیر دور حکومت میں اقلیتی ارکان کسی بات پر ناراض ہوگئے، انہوں نے اپنی اہمیت جتانے کے لیے زبردست ڈراما رچایا۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک میں جتنے بھی سرکاری شراب خانے ہیں ان کے لائسنس صرف اقلیتوں کو ہی دیے جاتے ہیں اور قانونی طور پر یہاں صرف اقلیتوں کو ہی شراب فروخت کی جاسکتی ہے۔ اقلیتی ارکان نے اعلان کیا کہ اسلام کی طرح ان کے مذاہب میں بھی شراب حرام ہے، لہٰذا وہ قومی اسمبلی میں اس پر پابندی اور اقلیتوں کے نام پر شراب کے اجازت نامے منسوخ کرنے کی قرارداد پیش کریں گے۔

یہ اعلان سنتے ہی ”مسلمان“ ارکان پارلیمان کے تو گویا ہاتھوں کے طوطے اڑگئے، ایک طرف اقلیتی ارکان قرارداد پیش کرنے پر مصر تھے تو دوسری طرف مسلمان ارکان ان کی منت سماجت میں لگے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

بہرحال اقلیتی ارکان نے اپنی پوری قیمت وصول کرکے قرارداد ردی کی ٹوکری میں پھینک دی، جس سے ”مسلمان“ ارکان پارلیمان کی جان میں جان آئی۔
آج کل جمشید دستی کے بیان پر بڑی ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔

مظفرگڑھ سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اس رکن اسمبلی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اپنے ”پیٹی“ بھائیوں کے کچھ پول کھول دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمان کی سرکاری قیام گاہوں میں شراب وشباب کی محفلیں جمتی ہیں، مجرے کے لیے لڑکیاں منگوائی جاتی ہیں اور لاجز میں ہر طرف چرس کی بو بسی ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی غیراخلاقی سرگرمیوں کے ان کے پاس ویڈیو ثبوت تک موجود ہیں۔


ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی رنگین داستانیں کھلا راز ہیں، اس موضوع پر باقاعدہ کتابیں موجود ہیں جن میں راہنمایان ِقوم کی ”شرافت“ کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صحافتی حلقوں میں ارکان پارلیمان کی جو کارستانیاں سینہ گزٹ کے طور پر مشہور ہیں، اگر وہ سامنے آجائیں تو عوام اپنے سر پیٹ لیں۔ عوام شراب، شباب اور منشیات کو برائی سمجھتے ہیں، مگر ”اعلیٰ“ سوسائٹی میں تو یہ اسٹیٹس کی علامت ہے۔

اس حلقے میں تو جو آدمی جتنا زیادہ ”بولڈ“ ہوتا ہے، اسے اتنا ہی روشن خیال اور مہذب سمجھا جاتا ہے۔ سورج ڈھلنے کے بعد شرفاء کے کلبوں میں جو کچھ ہوتا ہے، شاید اس کا بوجھ یہ کالم برداشت نہیں کرپائے گا، بس یوں سمجھیں وہاں انسانیت سسکتی اور شیطنت ناچتی ہے۔
بات کسی اور طرف نکل رہی ہے، کہہ یہ رہا تھا کہ ہماری تاریخ حکمران طبقے کی رنگین مزاجی کے مظاہر سے بھری ہوئی ہے۔

ایوان صدر کو آئینی طور پر بہت تقدس حاصل ہے، مگر اس ایوان میں ایسے لوگ بھی مقیم رہے ہیں جنہوں نے اس کے تقدس کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فوجی صدر یحییٰ خان نے تو اسے ”وہ“ بازار بنادیا تھا، مجیب الرحمن شامی صاحب نے کوئی ایک سال قبل اپنے جریدے ”زندگی“ میں یحییٰ خان کے پاس ایوان صدر جانے والی خواتین کی فہرست چھاپی تھی، لگ بھگ 540خواتین کی ایوان صدر کے مرکزی دروازے پر انٹری کی گئی تھی، جو صدر محترم سے رات کو ملاقات کے لیے آئیں اور صبح کو وہاں سے رخصت ہوئیں۔

نہ جانے کتنی ایسی خواتین بھی ہوں گی جو بغیر کسی انٹری کے ”اُس ایوان“ کی زینت بنی ہوں گی۔
پرویزمشرف نے ایوان صدر کو جو عزت بخشی، یوٹیوب پر موجود ویڈیوز اس کی گواہ ہیں۔ صدر مملکت کی زیرصدارت وہ محفل موسیقی تو بہت سوں کو یاد ہوگی جس میں ایف بی آر کے ٹُن چیئرمین سمیت کئی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے باقاعدہ ڈانس کیا تھا۔ آصف زرداری تو ویسے ہی بادشاہ آدمی تھے، ان کے دور میں ایوان صدر خوب آباد رہا۔

صرف پاکستان ہی نہیں جب زرداری صاحب بیرون ملک جاتے تو ان کے ”آرام“ کا بھرپور اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں ترکی کے دورے کا ملکی اور غیرملکی میڈیا میں کئی دنوں چرچا رہا تھا، قصہ یہ تھا کہ وہاں صدر زرداری کی ”راہنمائی“ کے لیے 3ترک لڑکیوں کا انتظام کیا گیاتھا، صدر واپس لوٹ آئے مگر ان لڑکیوں کو معاوضہ نہیں ملا، جب لڑکیوں نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو وہاں سے انہیں صاف جواب دے دیا گیا، سفارت خانے کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو جس خدمت کے لیے رکھا گیا تھا، اس کے لیے سرکاری طور پر سفارت خانے کے پاس کوئی فنڈ نہیں ہے۔

لڑکیوں نے مقدمہ دائر کردیا، صدر صاحب کا شوق باقاعدہ سفارتی تنازع بن گیا اوراس سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔
جمشید دستی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی عبدالمنان کا بیان بھی روزنامہ پاکستان میں چھپا ہے، انہوں نے الزام لگایاہے کہ مشرف دور میں ایوان صدر میں مجرا ہوا تھا، جس کے لیے ایک بھارتی اداکارہ کو بلوایا گیاتھا، اس اداکارہ کو عبدالمنان کے مطابق ”فن“ کا مظاہرہ کرنے پر 10لاکھ ڈالر پیش کیے گئے تھے۔

اداکارہ سے یاد آیا، امریکا سے انجلینا جولی پاکستان آئیں تو وزیراعظم شوکت عزیز جس غیرشریفانہ طریقے سے پیش آئے، وہ بھی اخبارات کی فائلوں میں موجود ہے۔ سندھ کے ایک وزیراعلیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ ہاوٴس میں ساڑھی باندھ کر ناچا کرتے تھے، مجھے یاد پڑتا ہے ارباب غلام رحیم نے بھی اس بارے میں بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو وزیراعلیٰ ہاوٴس میں مولانا طارق جمیل کے بیان رکھنے پر تو اعتراض ہے مگر یہاں ہونے والے ناچ گانوں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔


جمشید دستی نے ارکان پارلیمان کی غیراخلاقی حرکات کا معاملہ اٹھاکر بہت اچھا کام کیا ہے، اس پر ان کی تعریف کی جانی چاہیے، مگر پوری پارلیمنٹ ان کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پارلیمنٹ کے سارے ارکان برے نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سارے ارکان اچھے نہیں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ارکان جنہیں اچھا سمجھا جاتا ہے ،وہ بھی جمشید دستی کے خلاف کھڑے ہیں۔ انہیں بھی دستی کے بیان سے جمہوریت کو خطرہ نظر آرہا ہے۔ یہ جمہوریت بھی عجیب چیز ہے، جب بھی حکمرانوں کی کرپشن اور عیاشی پر انگلی اٹھائیں، اسے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :