عوام کے خادم یا قوم کے مجرم۔۔۔۔۔؟

ہفتہ 8 مارچ 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

عام انتخابات سے پہلے ایک نہیں میں نے ایسے ہزاروں نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور غریب سیاسی کارکنوں کو دیکھا جو سینے پر اپنے من پسند امیدواروں کے سٹکر اور فوٹو لگا کر ان کے لئے اپنوں اور بیگانوں سے ووٹ کی بھیگ مانگتے رہے، اپنے من پسند امیدواروں کی کامیابی کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے ان ہزاروں افراد کو گیارہ مئی تک کن حالات سے گزرنا پڑا یہ سوچتے ہوئے آج بھی دل کی دھڑکنیں تیز اور رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دہشتگردی کے سائے اور مخالفین کی غضب ناک نظروں کے سامنے ووٹ کے حصول کیلئے گھر گھر دستک دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ مانگتے مانگتے ان ہزاروں میں سے کئی دہشتگردانہ کارروائیوں اورکئی مخالفین کا نشانہ بن کر جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

(جاری ہے)

ان نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور غریب کارکنوں نے ہر سختی برداشت کرکے اپنے من پسند امیدواروں کی کامیابی کے لئے وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھا۔ اللہ گواہ ہے کہ ایک دو نہیں موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں اکثر ایسے ہیں جوغریب عوام جن میں نوجوان، بچے ،بوڑھے اور کارکن شامل ہیں کی طاقت اور شب و روز محنت سے پارلیمنٹ پہنچے۔ ہزاروں اور لاکھوں عوام کی سپورٹ اور قربانیاں نہ ہوتیں تو آج پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے یہ ممبران بھی گلی اور محلوں میں گھوم پھر کر روڈ ماسٹری کرتے ۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اگر سوچا جائے تو ممبران اسمبلی کی کامیابی کے پیچھے ایک نہیں ہزاروں اور لاکھوں ہاتھ ہیں جن کی بدولت پارلیمنٹ کے مکین ایم این ایز بنے ہوئے ہیں۔ در حقیقت ان ممبران کی کامیابی کے لئے ہزاروں اورلاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں نے اپنا آج قربان کیا ۔ آج قربان کرنے کے ان الفاظ سے ایک بات یاد آئی۔ یہ غالباً 2000ء یا 2001ء کا واقعہ ہے میں اسلام آباد کے ایک مدرسے میں پڑھتا تھا ۔مدرسے کا ایک طالبعلم جو مدرسے سے بھاگ گیا تھا اس کے گھر والے اس کو واپس لے آئے۔ ہمارے استاد محترم مولانا عبدالشکور صاحب جو اب اس دنیا میں نہیں، اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے نے اس طالبعلم کو سمجھانے کیلئے وعظ و نصیحت کے دوران ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے والدین نے ناساز حالات اور غربت کے باوجود تمہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے یہاں بھیجا ہے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر اس پر گزارہ کر ر ہے ہیں لیکن تمہاری کامیابی کیلئے وہ جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ ان کا مقصد اور خواہش ہے کہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اسلام کی سربلندی اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے کردار ادا کر سکو۔ اب اگر تم یہاں ادھر ادھر بھاگو یا فضول کاموں میں وقت ضائع کرو تویہ ان سے غداری اور ان کودھوکہ دینا ہوگا۔ ساتھ میں انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا جن کے الفاظ آج بھی ہم سب کیلئے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ تمہاری کامیابی کے لئے اپنا آج قربان کر دیں تم اپنا کل ان کے آج کے لئے قربان کر دو تاکہ تمہارا آج روشن ہی رہے۔ ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں جمشید دستی کے سنسنی خیز انکشافات کے بعد بارہ تیرہ سال پہلے استاد محترم کی وعظ و نصیحت کے دوران جو الفاظ میں نے سنے تھے وہ آج ایک مرتبہ پھر میرے کانوں سے ٹکرا رہے ہیں میں سوچتا ہوں کہ جن لوگوں نے ممبران اسمبلی کی کامیابی کے لئے اپنا آج قربان کیا آج جب ان کو اپنے ممبران کے سیاہ کارناموں کا علم ہوا ہوگا تو ان کے دل پر کیا گزررہی ہوگی۔ یہ ممبران اسمبلی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر میں پارلیمنٹ نہیں پہنچے بلکہ ان کو اس جگہ اور مقام تک پہنچانے کے لئے لاکھوں اور کروڑوں افراد نے تن ،من، دھن اور اپنا آج قربان کیا۔جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیئے انہوں نے خیرات کے نام پر نہیں بلکہ اپنے مسائل کے حل ،اسلام کی سربلندی اورملکی ترقی کے لئے دیئے۔ مگرافسوس کہ عوام کے مسائل تو جوں کے توں ہیں جبکہ غریبوں کے ووٹ سے پارلیمنٹ پہنچنے والے شراب و کباب کی محفلیں سجاکر دل بہلا رہے ہیں۔ اسلام آباد کی محفوظ پناہ گاہ پارلیمنٹ لاجز میں شراب و کباب کی مستی میں راتیں رنگین کرنے والوں نے کیاکبھی یہ سوچا کہ وہ جن لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر یہاں آئے ہیں وہ آج بھی روٹی کے ایک ایک نوالہ کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ عوام بھوک سے بلکتے اور مرتے رہیں تو ایسے میں منتخب نمائندوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ شراب و کباب کی محفلیں سجائیں۔ جمشید دستی نے عوام کے عظیم خادموں کے تاج محل پارلیمنٹ لاجز سے شراب کی خالی بوتلوں سے جو بوریاں بھریں اور جسے پوری دنیا نے دیکھا اس سے یوں لگتا ہے کہ اخلاقی طور پرہم مرچکے اور ہمارا جنازہ نکل چکا، شراب پینا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو ملک کے سب سے بالادست ادارے میں بیٹھ کر قانون سازی اور ملک و قوم کے مستقبل کی راہیں معتین کرتے ہیں اگر وہ خود ہی ایسی حرکتیں کریں گے تو ملک و قوم کا کیا ہو گا۔۔۔۔؟ غریبوں کے ووٹ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے اگر شراب اور خوبرو دوشیزاؤں کی مست نگاہوں میں ڈوب کر عوام کے ساتھ اپنی حیثیت بھی بھول جائیں تو پھر ایسے لوگ عوام کے خادم نہیں قوم کے مجرم کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ جمشید دستی نے قوم کے مجرموں کے اصل چہرے بے نقاب کرکے سیاسی مجاہد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس ملک کو جمشید دستی جیسے نڈر اور غیرت مند نمائندوں کی ضرورت ہے تاکہ شراب و کباب اور عیاشیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔ورنہ یہ ظالم اس ملک کواسی طرح لوٹتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :