امن کا تصور خواب ہوا

جمعرات 6 مارچ 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

کہا جاتا ہے جن معاشروں سے امن اٹھ جائے وہاں سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے ایسے معاشرے دنیا کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں اپنی پڑ چکی ہوتی ہے دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ بھی ایسی ہی کیفیت کا شکار ہو کر تنزلی کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہے المیہ یہ ہے کہ اس تنزلی کو ہم سریس ہی نہیں لے رہے بلکہ قدرت کے کھاتے میں یہ کہہ کہ ڈال دیتے ہیں کہ قسمت میں ایسا ہی لکھا ہے بھائی لوگو اگر قسمت کو کوئی بدلنا ہی نہ چاہے تو وہ خود کیسے بدلے گی کبھی کائناتی قوانین کا مطالعہ ہی کر لیا کرو لیکن ہم ایسا بھی نہیں کرتے کیونکہ اس میں محنت کرنی پڑتی ہے ۔

کسی بھی معاشرے کی بقا کا دارومدار جن چیزیوں ( انصاف ،امن و امان ،قانون کی بالادستی اور مساوات) پر ہوتا ہے ان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

بلکہ اگر ہم اپنے معاشرے کا بظاہر مطالعہ کریں اور جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہم پر بیتتی ہے اسے دیکھتے ہوئے آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم کسی بھی ظابطے کو ریاستی اور عوامی سطع پر نہ ہی ماننے کے لئے اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ہماری روز مرہ کی معاشرت کا یہ تجربہ ہے ایسے معاشرے کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟ اس پر بھی کسی کو تو غور کرنا چاہیے ، معاشرے کی بقاء کے لئے عدل و مساوات پر مبنی معاشی نظام کا قیام انسانی معاشرے کا بنیادی تقاضا ہے کیونکہ بنیادی حقوق کی عدم ادائیگی انسانی مساوات کو بے روح کر دیتی ہے اور جہاں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے وہاں وہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہاں سے معاشرہ بے امن ہونا شروع ہو جاتا ہے غربت اور امارت کی انتہا بھی معاشرے کی بے چینی اور بد امنی کا باعث بنتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسلام ارتکاز دولت کی بجائے گردش دولت کی تعلیم دینے کے ساتھ اپنی ضرورت سے زائد کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دینے کا حکم دیتا ہے اور اسلام کے عطا کردہ اقتصادی و معاشی حقوق کا مقصود معاشرے کے محروم طبقات اور افراد کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جن سے وہ حقیقی معنوں میں ایک فلاحی معاشرے کے شہری کے طور پر زندگی گزار سکیں۔

اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔ سود اور استحصال کی دوسری صورتوں نے معاشی جدوجہد کو مفلوج کر رکھا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ اسلام نے نہ صرف غیر صحت مندانہ معاشی سرگرمیوں کا خاتمہ کیا بلکہ معاشرے میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہر شخص کو معاشی جدوجہد کا حق عطا کیا اور ہر پیشے کو باوقار پیشہ قرار دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے باقاعدہ مزدوروں کے حقوق متعین کئے اور آجر اور اجیر کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی تعلقات کو لابدی قرار دیا تاکہ مزدور معاشی اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہو کر اپنی معاشی سرگرمیوں کے اثرات سے متمتع ہو سکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرتی اور سماجی تعلق کو تکریم انسانیت کے اصول پر مبنی قرار دیا اور دور جاہلیت میں غلاموں کو جس حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تصور کو ختم کر دیا اور فرمایا کہ ان کو بھی وہی مرتبہ دو جو تم اپنے خاندان کے دوسرے افراد کو دیتے ہو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدور کی مزدوری اور خادم کی خدمت کی تحسین کی اور اسے برابر سماجی رتبہ دینے کی تعلیم دی۔
پاکستان جسے ایک فلاحی مملکت بننا تھا وہاں بھوک و ننگ کے ڈیرے ڈل چکے ہیں جس کی آبادی کی اکثریت روٹی روزی سے محروم ہو چکی ہے دوا دارو نہ ملنے کی بنا پر خود کشیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے غربت کی انتہاوں کو چھوتے معاشرے کے حکمرانوں کی عیاشیاں عوام کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہیں مگر ہماری مقتدرہ کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ افراد معاشرہ کس کرب میں مبتلا ہیں اور نہ ہی وہ معاشری کی حالت بدلنے کے لئے کوئی کردار ادا کرنے کی تگ و تاز کر رہے ہیں حالانکہ یہ حکومت ہی کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے قلمرو میں بسنے واکے افراد (شہریوں) کی بنیادی ضروریات جن میں امن و عامہ کے ساتھ معاشی و سماجی انصاف اور صحت مندانہ ماحول فراہم کرے تا کہ افراد معاشرہ خود اپنی محنت کے بل بوتے پر زندگی کی ڈور گاڑی کو چلا سکیں لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا اور عوام کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سب سے پہلے امن کے تصور کو بہتر کرنے کے لئے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے تا کہ عوام سکون سے اپنا کاروبار زندگی سر انجام دے کر زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ سکیں اس کے ساتھ ہی صحت مندانہ ماحول کو فراہم کرنا بھی حکومت کی زمہ داری ہے۔


اگر حکومت نے امن عامہ درست کرنے اور عوام کی حالت زار بدلنے کی طرف توجہ نہ دی تو حالات مذید خراب ہو سکتے ہیں ملک میں دہشت گردی نے بھی شہریوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے بلکہ دنیا بھی ہمارے بارئے کوئی اچھی رائے نہیں رکھ رہی اور ہم دہشت گرد کے طور پر جانے جانے لگ ہیں اگر ا س تاثر کو درست کرنے کی کوکشش نہ کی گئی تو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے علم و عرفان کی حامل ترقی کرتی دنیا کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :