معذورافراد کے منہ پر ایک اورزناٹے دار تھپڑ

منگل 4 مارچ 2014

Qasim Ali

قاسم علی

معذورافراد ایک ایسی کمیونٹی ہیں جن کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے ان کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی جاتی ہے اور ان کو صحت ،تعلیم،ٹرانسپورٹ سمیت تمام سہولیات مفت اور ان کے گھر کی دہلیز پر مہیا کی جاتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کسی جسمانی عضو کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساس محرومی کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے اس کوشش میں وہ ممالک خاصے کامیاب بھی ہیں کیوں کہ ان ممالک میں رہنے والے معذورافراد ناصرف مطمئن ہیں بلکہ ان کو یہ جان کر حیرت بھی ہوتی ہے کہ امریکہ،برطانیہ،جاپان وغیرہ جو کہ غیراسلامی ممالک ہیں مگر ان کو وہاں معذورہونے کی وجہ سے وہ تمام سہولیات و مراعات مفت میسر ہیں جو ان ممالک کے بہترین افراد یعنی سائنسدانوں،پروفیسرز اور وزرائے مملکت کو حاصل ہیں مگر پاکستان جو کہ ایک اسلامی فلاحی مملکت ہے جس کو اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا وہاں معذورافراددربدر ہوچکے ہیں یہاں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں حالاں کہ اسلام نے معذورافراد کو جو عزت و مقام دیا ہے اس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان معذورافراد کے حوالے سے بہترین قانون سازی کرتے ہوئے دیگر ممالک کیلئے رول ماڈل بنتا جبکہ حقیقت یہ ہے گزشتہ 67برسوں سے معذورافراد کسی بھی قسم کی قانون سازی سے محروم ہیں اوریہ سمجھنے کیلئے کسی بقراط کے ذہن کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت نے پوری دنیا کو دولت بنانے والی مشین بنا دیاہے اور ایک نارمل سفید پوش انسان کا بھی زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں سانس پھول جاتا ہے اور وہ تمام تر توانائیاں صرف کرکے بھی بمشکل ہی اپنا پیٹ پال پاتا ہے ایسے میں ان معذورافراد کی زندگی کس حال میں گزررہی ہوگی جو اپنی معذوری کے باعث نہ تو اکانومی سے اپنا وصول کرکے اپنی زندگی کی گاڑی چلاسکتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ ان کو خود میں مدغم کرتا ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے خاندان والے ہی ان کو بوجھ اور بیکار سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ وہ حالات ہیں جن کے باعث معذورافراد کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوجاتی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ عوام کی نمائندہ کہلانے والی کسی بھی پارلیمنٹ نے اس اہم ترین ایشو کی جانب توجہ دینا گوارا نہیں کیا۔ حکومتوں کی اسی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں معذورافراد کی تعداد انتہائی خطرناک سطح کو چھورہی ہے جہاں معذورافراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی کمیونٹی ہے ۔

ان حالات میں جب 17دسمبر کو معروف کالم نگار اور first blind journalist of pakistanسیدسرداراحمدپیرزادہ صاحب کی خصوصی کوششوں سے پالیمنٹ میں معذورافراد کی نمائندگی اور ان کیلئے سیٹیں مختص کرنے کا بل پیش کیا گیا تواس سے پاکستان بھر کے معذورافراد میں امید ویاس کی ایک لہر پیدا ہوگئی کہ یہ بل پاس ہوجانے کی صورت میں معذورافراد کو اپنے مسائل خود اسمبلی میں پیش کرنے کا موقع مل جائے گا اور اس طرح نہ صرف اس طبقے کے دل پر لگے وہ زخم کسی حد تک مندمل ہوجائیں گے جو مسلسل معاشرتی وحکومتی بے حسی و بے اعتنائی کے باعث ان کو چُورچُور کرچکے ہیں لیکن ہنوزمنزل دوراست کے مصداق یہ بل 17فروری کو پارلیمنٹ نے ناقابل عمل قراردے کرمسترد کردیا اس بل کے مسترد ہونے سے جہاں پورے ملک کے معذورافراد کو شدید مایوسی ہوئی وہیں ان کے ذہنوں میں اس سوال کا پیدا ہونا بھی ایک قدرت امر ہے کہ وہ پارلیمنٹ جو خواتین کو اپنے لئے قانون سازی اور اپنا حق حاصل کرنے کیلئے اسمبلی میں نمائندگی دیتی ہے جہاں تین فیصد غیرمسلم اقلیتوں کو اس لئے نمائندگی حاصل ہے کہ اسلام اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے وہیں ان 15فیصد معذورافراد کو داخلے کی اجازت کیوں نہیں جن کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پھر ان میں بڑھتا ہوا احساس محرومی اور مایوسی کسی بھی وقت ایک المیے کی شکل اختیار کرکے پاکستان کی مزیدبدنامی کا باعث بن سکتی ہے ۔

اس بل کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بھی بیان کی جانی ضروری ہے کہ یہ بل ایم کیو ایم کی جانب سے پیش کیا گیا جو کہ ایک لبرل جماعت سمجھی جاتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن جیسی پیش پیش رہیں جو کہ دن رات ملک میں اسلامی قوانین اور اسلامی معاشرے کیلئے جدوجہد کا ڈھنڈورہ پیٹتی نظرآتی ہیں ۔

بل کے مسترد کئے جانے کے وقت سیکرٹری پارلیمانی کمیٹی جسٹس ریٹائرڈ رضاخاں صاحب نے ریمارکس دئیے کہ معذورافراد کی نمائندگی کی قانون اجازت نہیں دیتا تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے قانون تو تب اجازت دے گا جب اس حوالے سے کوئی قانون بنایاگیا ہوگا جب کہ معذورافراد کا تو رونا ہی یہی ہے کہ ان کیلئے کوئی قانون سازی کی جائے لیکن اگر فرض کریں کہ ان کے ''معذورافراد کی اسمبلیوں میں نمائندگی کی قانون اجازت نہیں دیتا '' کے اس موقف کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی ہم یہاں جسٹس ریٹائرڈ رضاخاں صاحب سے یہ استفسار کرنا چاہتے ہیں کہ ان کو وہ700قوانین نظرکیوں نہیں آتے جو اسلام کے خلاف ہیں جب کہ ہمارے آئین کی پہلی شق ہی یہ کہتی ہے کہ اسلام پاکستان کا سپریم لاء ہوگا اور یہاں اسلام کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔

بہرحال اس تاریخی بل کا مسترد ہونا پہلے سے ہی حکومت کی مسلسل عدم توجہی و ناانصافی کے شکارمعذورافراد کے منہ پر ایک اور زناٹے دار تھپڑ ہے جس کے درد سے کروڑوں معذورافراد تلملا اٹھے ہیں لیکن معذورافراد گھبرائیں نہیں اس بل کا مستردہونا ایک عارضی رکاوٹ ثابت ہوگااس سے ہمارے حوصلے پست نہ ہونے پائیں ہم انشااللہ ا پنی جدوجہد کومزیدتیزکریں گے اور بہت جلد یہ وقت آئے گا جب پاکستان میں معذورافراد کو اسمبلیوں میں نمائندگی سمیت وہ تمام سہولیات و مراعات میسر ہوں گی جو کہ اسلام اور عالمی قوانین انہیں دیتا ہے۔
ہزاربرق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :