جہاد افغانستان سے جہاد پاکستان تک

منگل 4 مارچ 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

روس کی شکست وریخت قریب تھی‘ پاکستان کے حساس اداروں کی زیرنگرانی اور امریکی ڈالروں کی چھن چھناچھن کی بارش میں بھگوتے اُس وقت کے طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کے رضاکار ”شوق شہادت “ اور ”جذبہ ایمانی “ کے تحت افغانستان میں مصروف جہاد تھے ‘اسی عظیم ”اسلامی جہاد “ کے دوران مملکت خدادادپاکستان کی کئی ”اسلامی جماعتوں “ نے ”جہاد “ کے نام پر خوب چاندی اکٹھی کی ۔

اسی دوران لشکرطیبہ (آج کل اس تنظیم کو کالعدم قرار دیاجاچکاہے )کے سرپرست مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرنے آئے۔ چونکہ ان کادورہ بھی ”جہادی“ حوالے سے ہی تھا یہ چونکہ ہماری صحافتی زندگی کے ابتدائی سال تھے اس لئے ہرپریس کانفرنس میں ذوق وشوق سے جاتے تھے پھر حافظ سعید جیسی نامور شخصیت کی پریس کانفرنس میں جانا ہمارے لئے یوں بھی ”سعادت “ کی بات تھی کہ موصوف جہاد کے حوالے سے بڑا ہی نام پیداکرچکے تھے۔

(جاری ہے)

رمضان المبارک کی متبرک ساعتیں تھیں‘ پریس کانفرنس کے بعد افطارڈنرکا اہتمام بھی تھا۔ دوران پریس کانفرنس تو خیر جو باتیں ہوئیں البتہ حافظ سعید کے اختتامی جملوں کے دوران ہی ہمارے سینئر صحافی سید ظفرحسین برنی نے سوال داغ دیا”افغانستان میں جو جہادی برسرپیکار ہیں ‘افغانستان کا معاملہ طے ہونے کے بعد یہ جہادی کہاں جائیں گے؟کیا ان کااگلا میدان جنگ پاکستان تو نہیں بنے گا؟
حافظ صاحب یہ سوال سن کر تھوڑا پریشان ہوئے ‘پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے دورا ن بولے ” نہیں ایسا نہیں ہوگا؟ اللہ خیر کرے افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد یہ جہادی پرامن شہری کی طرح زندگی بسر کریں گے؟“ اگلا سوال ظفر حسین برنی کے منہ میں ہی رہ گیا اورمیزبانوں کی طرف سے وقت افطارہونے کی نویدسناد ی گئی۔

ہم نے سید ظفر حسین برنی سے پوچھاتھا کہ آپ کیا سوال کرنے والے تھے ‘ ظفر حسین برنی نے بڑے ہی سنجیدہ مگر پرفکر لہجے میں جواب دیاتھا کہ ”میرا سوال یہ تھا کہ جس کے رگوں میں جہاد یا جہادی جذبہ پروان شامل ہوجائے وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا اور پھر جس انداز میں اس جہاد کی بنیاد رکھی جارہی ہے وہ تو کبھی ان جہادیوں کو آرام سے نہیں بیٹھنے د یگا‘ ‘
صاحبو!تین عشرے گزرنے کے بعد سید ظفرحسین برنی کے الفاظ حقیقت کا حقیقی عکس نظرآتے ہیں کہ ”ڈالروں “ کی چھنا چھن میں پروان چڑھنے والے جہاد آج پاکستان کیلئے انتہائی خطرہ بن چکے ہیں۔

افغانستان میں لڑی جانیوالی لڑائی واقعی جہاد تھی یا پھر امریکہ کو سربلند کرنے اور اس کے مدمقابل ”سپرپاور“ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ”امریکی پلان “ ۔ یہ تو بہرحا ل طے ہو ہی چکاہے کہ اس ”امریکی ساز ش “ کا حصہ اس وقت کی حکومت بھی تھی اورہمارے حساس اداروں کے افسران‘ اہلکاران بھی ‘ پھر مذہبی جماعتو ں کو استعمال کیاگیا کیونکہ امریکی تھنک ٹینک کاخیال تھا کہ پاکستانی قوم ہر معاملے پر کمپرومائز کرسکتی ہے سوائے مذہب کے۔

پاکستانی قوم کی اس ”دکھتی ہوئی رگ “ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جہادی سنٹرکھولنے کی اجازت دی گئی ‘ہر تنظیم کا جہادی سنٹر الگ سے تھا‘ نوجوانوں کو لانے لے جانے کی ذمہ داری انہی تنظیموں کے کاندھے پر تھی۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں ”ڈالروں کی چھناچھن “ کی وجہ سے اس جہاد کی رونق ہی الگ سی دکھائی دی۔ پیسے کی فراوانی اور اسلحہ کی باآسانی دستیابی نے دو آتشہ کا کام کیا اور پھر پاکستان ‘امریکہ کی ہمراہی میں ”جہاد افغانستان “ میں سرخرو ٹھہرا۔

روس افغانستان سے الٹے قدموں لوٹا تو پھر اس کی شکست وریخت کاآغاز ہوگیا۔ دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور اپنے ہی زخم چاٹنے پر مجبور ہوگئی۔ اسی جہاد کا نتیجہ تھا کہ امریکہ کے پاکستان اور”جہادیوں“ کو بے یارومدد گار چھوڑنے کے باعث افغانستان میں قتل وغارت کاختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہیں سے طالبان اوردیگر جہادی گروپوں میں خونریز لڑائی شرو ع ہوئی اورپھر نتیجہ طالبان کی حکومت کی صورت سامنے آیا۔

پاکستان اس وقت تک کسی نہ کسی حد تک محفو ظ تھا کہ کئی ”افغان گروپ “ پاکستان کو ”خانہ کعبہ‘ مدینہ منورہ “ جیسے تقدس کا حامل سمجھتے تھے‘ ان کے باہم فیصلے بھی اکثر اسلام آباد کی گھاٹیوں میں ہواکرتے تھے۔ لیکن پھر منظر بدل گیا ‘امریکہ نے ”جہاد افغانستان “ کے بالکل الٹ پلاننگ کرتے ہوئے9/11کاڈرامہ رچادیا اب کی بار اس کا نشانہ دو ہی قوتیں بنیں ‘ ایک افغان جہاد میں ا س سابقہ رفیق اوردوسرا اس کے ڈالروں کی چھن چھناچھن میں پروان چڑھنے والے جہادی ۔

اب اسے امریکہ کی بے وفائی سمجھاجائے یا پھر اپنے ہی پیداکردہ کرداروں کو ختم کرنے کی سازش ‘ بہرحال نائن الیون کے بعد کہانی نئے رخ کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے کہ جہاد افغانستان میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کو شامل کیاگیا وہ جہادی اب افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے۔ ایک نسل ختم ہونے کو ہے اوردوسری کاآغاز ہونے جارہاہے۔

ا س عرصہ میں کئی غیرملکی جہادیوں نے پاکستان کے ”علاقہ غیر “ کہلوانے والے علاقہ جات میں رہائش پذیر ی کے بعد شادیاں رچالیں اورآج کئی بچوں کی پروش کررہے ہیں گویا اب وہ جہادیوں کی نئی نسل پیداکررہے ہیں۔
صاحبو! ذرا ماضی میں حافظ سعید احمد سے کئے جانے والے اس ”خوفناک“ سوال کا جائزہ لیجئے اورپھر پاکستان کے حالات بھی دیکھئے کہ کیا سینئر صحافی سید ظفرحسین برنی کاخدشہ غلط تھا یا درست ؟ یقینا مزید کچھ کہنے اورسننے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ ”جہاد افغانستان “ سے شرو ع ہونیوالی کہانی اب ”جہاد پاکستان“ بن چکی ہے اور جس گود میں یہ ”جہادی “ پرورش پاتے رہے آج اسی کو اجاڑنے اور تہہ تیغ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

وجہ صرف اتنی کہ ”افغانستان “ میں پورا نہ ہونے والا خواب پاکستان پرلاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی طرح عوام کی قوت برداشت کب جواب دے جاتی ہے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :