عوامی بددیانتی

بدھ 26 فروری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

عام انتخابات کا "ڈھول" بجنا بند ہوا تو دھاندلی کا "راگ" شروع ہو گیا۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ راگ اگلے عام انتخابات تک جاری رہے گا۔ میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ ہمیشہ دھاندلی کا شور کیوں اٹھتا ہے۔ اس کا جواب مجھے ایک پبلک ٹرانسپورٹ گاڑی کے کنڈیکٹرنے دے دیا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ مجھ سے توبہتر وہ کنڈیکٹرہے جس نے بالکل درست تعریف کی دھاندلی کی اور مجھے یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان میں انتخابی دھاندلی آج کل کیسے ہو رہی ہے۔


جن لوگوں کا اثرو رسوخ اپنے علاقوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں تو دھاندلی ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد بھی کی جا سکتی ہے۔ جیسے پنجاب کے کچھ حلقوں میں ہوا۔ جہاں ووٹوں کی تصدیق کے معاملے پر محترم طارق ملک صاحب کو اپنی ملازمت تک سے ہاتھ دھونے پڑے۔

(جاری ہے)

کینیڈا پلٹ ملک صاحب کو شاید اب اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وطن سے محبت کتنی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے ۔

لہذا اگر وہ بھی اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے تو شاید بہت ترقی کرتے ۔ خیر ذکر ہو رہا تھا دھاندلی کا۔ جن حلقوں کے امیدوار اپنے حلقے میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں وہ دھونس کے ذریعے بھی ووٹ لینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ دھاندلی کا طریقہ تو وطن عزیز میں بہت عام ہے۔ اور رائج بھی ہے۔
لیکن اس کنڈیکٹرنے شرمندگی لیے آنکھوں سے جو طریقہ بتایا ان عام انتخابات میں دھاندلی کا یہ طریقہ بہت حد تک عملی طور پر نظر آیا۔

میں بالکل مبالغے سے کام نہیں لے رہا کہ کنڈیکٹر کی آنکھوں میں شرمندگی تھی۔ بلکہ اس نے تو اپنے الفاظ میں کہا کہ مجھے دل سے افسوس ہے کہ میں اس دھاندلی کا حصہ کیوں بنا۔ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلاوجہ شور کیا جاتا ہے کہ سیاستدان دھاندلی کرواتے ہیں۔ حقیقت میں تو عوام خود دھاندلی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ملبہ خوامخواہ " بے چارے" سیاستدانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

( ویسے سیاستدانوں کی بے چارگی کی کوئی حد نہیں ہوتی)۔
کنڈیکٹرکے بقول اس کا تعلق اسلام آباد کے حلقے NA-49 سے ہے۔ جہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے راہنما چوہدری الیاس مہربان کا مقابلہ نواز لیگ کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے تھا۔ ڈاکٹر طارق نے چوہدری الیاس مہربان کو شکست دے دی ۔حالانکہ غیر جانبدار تجزیہ کار یہ دعوی کر رہے تھے کہ چوہدری الیاس مہربان جس طرح کی شخصیت کے مالک ہیں وہ یہ نشست جیت کر اپ سیٹ کر دیں گے۔

لیکن ایسا نہ ہو سکا۔اس حلقے میں ویسی دھاندلی نہیں ہوئی جیسا شور وسطی پنجاب، کراچی یا دوسرے شہروں میں تھا۔ اسلام آباد کے اس حلقے میں " عوامی دھاندلی" کی گئی۔ اس دھاندلی میں ڈاکٹر طارق فضل صاحب ملوث نہیں تھے ۔ بلکہ خود عوام اس دھاندلی میں ملوث تھے۔ ( یہ میرے نہیں بلکہ اس کنڈیکٹر کے خیالات ہیں)۔اس کا کہنا تھا کہ اس حلقے میں PTI کی پوزیشن بہت مضبوط تھی۔

اور امید کی جا رہی تھی کہ چوہدری الیاس ، ڈاکٹر طارق جیسے مضبوط امیدوار کو شکست دے کر اپ سیٹ کر دیں گے۔ لیکن عوام نے وعدے تو الیاس مہربان سے کیے ۔ اور انہیں اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا ۔ لیکن برادری ازم کی مہربانی سے ووٹ مہربان کو نہیں دیا۔ جب اس سے پوچھا کہ بھائی جس امیدوار کو ووٹ دیا وہ تو کامیاب ہو گیاتو پھر اب شرمندہ کیوں ہو تم۔

اس کا جواب تھا کہ ملک کے حالات جس طرح کے ہیں۔ اور جس طرح میاں صاحب اپنے انتخابی وعدے بھول بیٹھے ہیں۔ وہ ہمارے لیے شرمندگی کا مقام ہے کہ ہم نے تحریک انصاف کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ یہ میرے نہیں اس کے الفاظ تھے کہ " ہم اسی سلوک کے قابل تھے جیسا اب ہم سے ہو ررہا ہی"۔اس نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ " ایک ہفتہ پہلے مجھے گھر والوں نے کہا کہ آٹا ختم ہونے کے قریب ہے ۔

میں نے سات دن کی مشقت کے بعد اتنے پیسے جمع کیے ہیں کہ بمشکل آٹے کا ایک تھیلا خریدنے کے قابل ہوا ہوں( سات دن میں 3 دن سی این جی بند رہتی ہے اس عرصے میں گاڑی کا مالک اپنے پیسے ہرگز کم نہیں کرتا مجبوراً ڈرائیورا ور کنڈیکٹر کو ہی اپنی دیہاڑی کم کرنی پڑتی ہے) ۔ایسی حالت میں شرمندہ نہ ہوں تو اور کیا کروں"۔
بہت سے لوگ شاید یقین نہیں کریں گے لیکن میں نے مبالغے سے کام نہیں لیا بلکہ ایک ایسے شخص کے الفاظ آپ تک پہنچا دیے جس کو میں جانتا بھی نہیں تھا۔

اور یہ میری اس سے زندگی میں پہلی ملاقات تھی ۔ یہ میرے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا کہ پہلی دفعہ عوام کو یہ مانتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ وہ دھاندلی میں حصہ دار ہیں۔ قارئین پہ چھوڑتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کیا یہی تبدیلی کا آغاز ہے کہ اپنی غلطی ماننے کی روایت پروان چڑھ رہی ہے ؟پاکستان میں اس طرح کی دھاندلی کی مثالیں آپ کو گلی محلوں تک میں نظر آئیں گی ۔

جہاں لوگوں کی ہمدردیاں تو کسی اور کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن ان کا ووٹ برادری کے ساتھ ہوتا ہے۔ حالانکہ انہیں پتا بھی ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ضائع ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ ایسا کرتے ہیں۔ ووٹ ہر فرد کا ذاتی حق ہوتا ہے اور یہ قومی امانت ہے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ گا کہ عوام نے قومی امانت میں بد دیانتی کی ۔ برادری ازم اور ذات پات اس دیمک کی طرح ہے جو خاموشی سے لکڑی کو اندر سے کھوکلا کرتی رہتی ہے۔

اور پتا تب چلتا ہے جب کسی معمولی سے جھٹکے سے لکڑی کے دو ٹکڑے ہو جا تے ہیں۔یہی حال وطن عزیز کا بھی ہے۔ یہ عوامی بددیانتی ہی تو ہے کہ آپ ایک چیز کو غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس میں نقصان کس کا ہے؟ آنے والی نسلوں کا۔۔۔ یہ ایک اچھی روایت تو ہے کہ لوگ اپنی غلطی ماننا شروع ہو گئے ہیں لیکن ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ بھی کیا جائے۔ اور یہ ازالہ کوئی اور نہیں عوام ہی کر سکتے ہیں۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ آپ کا ایک ووٹ کیا اہمیت رکھتا ہے۔ بلکہ آپ یہ سوچیں کہ آپ کا ایک ووٹ ہی اہمیت رکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :