این ٹی ایس ٹیسٹ کی بھینٹ چڑھنے والا مستقبل؟؟؟

منگل 25 فروری 2014

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

ہزارہ کے مختلف اضلاع سے این ٹی ایس ٹیسٹوں پر رائے زنی کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ایک حوالوں سے اس ٹیسٹ پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں تا کہ اسے نمایاں بہتری اور مطلوبہ اہداف کی طرف لے جایا جا سکے۔ گزشتہ روز ہری پور میں محکمہ تعلیم خیبرپختونخواکی مختلف پوسٹوں کے لیے ہونے والی بھرتی کے لیے این ٹی ایس کا انعقاد کیا گیا جسے متنازعہ قرار دے کر اس کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔

اس حوالے سے متاثرہ خواتین امیدوارونں نے بتایا کہ انھیں بلا وجہ ٹیسٹ سے باہر کر کے اور ان کا ٹیسٹ منسوخ کر کے ان کا کئیرئیر داؤ پر لگا کر ان کا مستقبل بھی تاریک کر دیا گیا ہے جب کہ یہ ان کے پاس آخری چانس بھی ہے۔ ہری پور میں این ٹی ایس ٹیسٹ دینے والی بعض خواتینمختلف اخبارات کے دفاتر فون کر کے روہانسی آواز میں بتایا کہ وہ سی ٹی ، ٹی ٹی اور دیگر ٹیسٹوں میں بیٹھی تھیں اور ان کے بیگزبھی ان سے لے کر ہال کے باہر رکھ دیے گئے تھے اور ان کے پاس ٹیسٹ کے وقت کوئی بھی ہیلپنگ میٹیریل نہیں تھا کہ اچانک ایک مرد سپروائزر نے انھیں پوچھا کہ یہ بیگ اور اس میں پڑا موبائل کس کا ہے جس پر انھوں نے ٹیسٹ پر کینسل لکھ دیا حالانکہ اس وقت بیگ اور موبائل ٹیسٹ والی جگہ سے باہر تھا اس طرح ناانصافی کا برتاؤ کیا گیا اگر کوئی امیدوار چیٹنگ میں ملوث ہوتا اور اس کا ٹیسٹ منسوخ ہو تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا جب کہ بعض خواتین امیدواروں سے مبینہ طور پر انتہائی ہتک آمیز اور غیر منصفانہ رویہ اختیار کر کے ابھیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا۔

(جاری ہے)

متاثرہ خواتین نے مردانہ سٹاف کی طرف سے غیر مناسب زبان کے استعمال پر بھی سوال اٹھائے اور یہ بھی بتایا کہ وہ صرف سوال کی وضاحت کروانا چاہتی تھیں کہ ان سے آدھا آدھا گھنٹہ پرچہ لے کر ان کا وقت ضائع کیا گیا۔متاثرہ خواتین امیدواروں نے بتایا کہ ایک زنانہ امیدوار کو مرد سپروائزر کی طرف سے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑنا اور تضحیک و تذلیل کے ساتھ ساتھ بد اخلاقی کرنا کہاں کا قانون اور انصاف ہے؟ایک متاثرہ خواتین امیدوار کی دہائی یہ بھی ہے کہ اگر اس کی چئیر سے یااس کے پاس سے موبائل نکلتا تو پھر بھی اس کی غلطی تھی مگر کمرے کے باہر سے موبائل اٹھا کر امیدوار سے منسوب کر کے اس کا ٹیسٹ منسوخ کر دینا صریحا ناانصافی اور شدید حق تلفی کے ساتھ ساتھ مستقبل تباہ کرنے پر مبنی افسوس ناک اقدام بھی ہے جس کا صوبائی و مرکزی حکومت سخت نوٹس لے اور غیر جانبدارانہ انکوائری کر کے جن خواتین امیدواروں سے ناانصافی کی گئی ہے انھیں انصاف فراہم کر کے ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جائے اور ان کا این ٹی ایس ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے۔

سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ خواتین امیدواروں پر مردانہ سٹاف کی ڈیوٹی کیوں لگائی گئی کیا پڑھی لکھی خواتین ناپید تھیں کہ مرد سپروائزروں کے ہاتھوں خواتین امیدواروں کی تذلیل کروائی گئی؟اور دوسرا یہ کہ سٹاف کی ڈیوٹی صرف شفاف ٹیسٹ کا انعقاد ہے نہ کہ وہ ٹیسٹ والی جگہ پر تھانیدارانہ رویہ اختیار کر کے امیدواروں کو ذہنی اذیت مبتلا کریں؟اور ہتک آمیز رویہ اختیار کریں؟متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ سی ٹی میں ڈپلومہ ہولڈر اورایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ڈیپارٹمنٹ میں پورے صوبے میں پوزیشن ہولڈر ہیں اور اس سے پہلے بھی ہزارہ یونیورسٹی،کامسیٹس اور اسلام آباد کے علاوہ مختلف اداروں میں این ٹی ایس ٹیسٹ دے اور پاس بھی کر چکی ہیں یہ ان کے پاس آخری چانس تھا مگر ان پر بلا وجہ خود ساختہ الزام عائد کر کے ان کا ٹیسٹ منسوخ کر کے ان کا مستقبل تاریک کر کے رکھ دیا گیا؟انھوں نے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان اور وزیر اعظم میاں نواز شریف سے بھی دادرسی کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے فریاد کی کہ ہری پور میں ناانصافی کی بھینٹ چڑھنے والا ان کا یہ ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے تا کہ ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکے اور انھیں انصاف بھی مل سکے؟اگر انھیں انصاف نہ ملا تو یہ سراسر ناانصافی ہو بلکہ انصاف کا خون ہو گا۔

۔۔۔ادھر تنظیم اساتذہ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات شاہد محمود گوہر جو خود بھی مذکورہ این ٹی ایس ٹیسٹ کا مشاہدہ کر چکے ہیں نے بتایا کہ این ٹی ایس کی شفافیت یقینی بنائی جائے اور انتظام و انصرام بہتر کیا جائے جس کے لیے مخلوط ٹیسٹ کا خاتمہ اور دیانتدار،فرض شناس اور باکردار سٹاف تعینات کیا جائے جن کی فرض شناسی اور دیانتداری مثالی ہو کیونکہ جس طرح کی بد نظمی اور کمزور گرفت دیکھنے میں آئی اس سے تو این ٹی ایس کی ساکھ پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور عوامی اعتماد مجروع ہو رہا ہے کہ اس طرح صریحا حق تلفی کا احتمال ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس ٹیسٹ میں مبینہ طور پر اقربا پروری بھی کی گئی اور سٹاف کی طرف سے کمزور گرفت بھی دیکھنے میں آئی جب کہ کمزور گرفت اور انتظامی کمزوری کی پردہ پوشی کے لیے مختلف حیلوں بہانوں سے بعض امیدواروں کے پرچے منسوخ بھی کیے گئے۔انھوں نے بتایا کہ گیٹ پر زنانہ امیدواروں کی تلاشی بھی مرد سپروائزر کرتے رہے جس کی کسی بھی حوالے سے کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی مردوں پر خواتین اور خواتین امیدواروں پر مرد سپروائزرز کی ڈیوٹی ہونی چاہیے۔

شاہد گوہر کے مطابق اقرباپروری کے خاتمے اور فرض شناس و دیانتدار عملہ کی تعیناتی تک این ٹی ایس کے مطلوبہ نتائج تک رسائی ممکن نہیں جس پر متعلقہ ذمہ دار حکام کو ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ صحیح معنوں میں این ٹی ایس کے انعقاد سے میرٹ پر اہل اور قابل افراد کو مختلف اداروں میں ذمہ داریاں تفویض کر کے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں اور بگڑے نظام کی اصلاح اور ترقی کا سفر شروع کیا جا سکے۔

اسی طرح این ٹی ٰیس ٹیسٹ میں بیٹھنے والے ایک اور امیدوار نے اس ٹیسٹ کے سٹاف کی طرف سے دوہرے معیار اپنانے بابت بتایا کہ ہمارے کمرے میں تو سر کھجانے اور سر اٹھاکر سانس لینے پر بھی دس بیس منٹ کے لیے امیدواروں سے پرچے لے لیے جاتے تھے جب کہ ٹیسٹ کے بعد دوسرے کمرے میں بیٹھ کر ٹیسٹ دینے والوں نے بتایا کہ انھیں متعلقہ خاتون سپروائزر کی طرف سے مبینہ طور پر کہا گیا کہ میری بھی عزت کا خیال رکھیں آواز نہ آئے اور صلاح مشورہ کر کے لکھ سکتے ہیں سو وہ اس طرح اور ہم اس طرح این ٹی ایس ٹیسٹ دیتے رہے۔

۔۔۔۔مذکورہ بالا صورت حال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ این ٹی ایس ٹیسٹ کے لیے مزید بہتر انتظامات ،دیانتدار اور فرض شناس عملے کی تعیناتی از حد ضروری ہے تا کہ این ٹی ایس کے ثمرات سے حقیقی معنوں میں استفادہ کر کے قابل اور محنتی افراد کی کھیپ مختلف قومی اداروں کو فراہم کر کے ترقی کا سفر پروان چڑھایا جا سکے اگر متاثرہ امیدواروں سے ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ اور اصلاح احوال کے لیے مجموعی طور پر بہتر انتظامات نہ کیے گئے تو پھر رائج الوقت ناقص امتحانی نظام کی طرح این ٹی ایس ٹیسٹ بھی روایتی بے حسی و عدم توجہی کی بھینٹ چڑھنے کا قوی احتمال ہے اس لیے متعلقہ ذمہ داران کو اس پر خصوصی توجہ دے کر این ٹی ایس کو ناکامی سے دوچار ہونے سے بچانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ ملک و قوم کو این ٹی ایس سے مطلوبہ نتائج صحیح معنوں میں حاصل ہو نے کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی بھاری رقوم بھی ضائع نہ ہوں اور کسی کا مستقبل بھی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :