مذاکرات یا آپریشن۔۔۔قومی اتفاق رائے ضروری ہے

منگل 25 فروری 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

مذاکرات ہی واحد حل تھا۔ مذاکرات ہی ملک و قوم کے مفاد میں تھے۔مذاکرات ہی جاری رکھے جاتے تو بہتر نتائج کی توقع تھی۔طاقت کا استعمال خواہ کسی بھی طرف سے ہو مسئلے کا ہر گزحل نہیں ہوتا ۔ طاقت کا استعمال معاملات کو مذید گھمبیر توبنا سکتا سُلجھا نہیں سکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جنگ و جدل سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے بلکہ مسائل کے حل کیلئے ہمیشہ مذاکرات ہی آخری حل قرار پائے ۔

افغانستان میں برسوں طاقت کی زور آزمائی سے نیٹو افواج نے کیا حاصل کیا ؟؟ اتنے طویل عرصے تک لڑنے کے بعد آخر امریکہ کو آج مذاکرات ہی کی میز پر آنا پڑا ، جبکہ طالبان نے بھی اپنی دہشتگرد کاروائیوں سے کچھ حاصل کیا ہوتا تو وہ آج مذاکرات پر آمادہ نہ ہوتے ۔ادھرپاکستان کو بلوچستان اورکراچی میں طاقت کے استعمال سے کیا ملا؟ لال مسجد کے کیا نتائیج نکلے اور قبائلیوں سے چھیڑ چھاڑ سے آج ہم کتنے محفوظ ہیں؟؟ جی ہاں جناب عالی ! طاقت کا استعمال کبھی امن نہیں لاتا۔

(جاری ہے)

طاقت کا استعمال وقتی رکاوٹیں تو شائد دور کر سکتا ہے مگر دیر پا اور پائدار امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔باالفرض طاقت کا استعمال ناگزیر ہو چکا تھا یاآپریشن ہی آپشن بچا تھا تو اسکے لئے اتفاق رائے نہائت ضروری تھا خصوصاً طالبان میں اثرو رسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں اور علماء کو آن بورڈ کیا جاتا توآپریشن کو ممکنہ حد تک کامیاب بنایا جا سکتا تھا۔


حکومت پاکستان کی طالبان یا دہشت گردوں سے مذاکرات یا اُنکے خلاف آپریشن کی پالیسی ہمیشہ سے مخمصے کا شکار رہی ہے ۔ مذاکرات ہوں یا آپریشن۔۔کامیابی کیلئے ملک کی تمام تر اکائیوں ، حکمران، فوج ، سیاسی و مذہبی قیادت ، علما ء، سول سوسائٹی اور عوام کے مابین مکمل ہم آہنگی پیدا کرنا ایک ضروری امر ہے جس میں ہماری سابقہ اور موجودہ قیادت نے یکسر نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک نہ تو مذاکرات ہی کامیاب ہو سکے اور نہ آپریشن ۔۔۔۔حالیہ نام نہاد مذاکرات کا بھی یہی حال ہواہے جس میں ملک کی تمام سیاسی،مذہبی اور فوجی قیادت بظاہر تو متفق نظر آئی جبکہ حقیقت اسکے بر عکس تھی۔ تازہ مذاکرات صرف حکومت اور طالبان کے درمیان ہی دکھائی د یے جو کہ دونوں اطراف سے نا پختگی کا شکار رہے۔ طالبان سے مذاکرات کی حامی جماعتیں، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اگر چہ مذاکرات کے حق میں تھیں مگرکنفیوژن کا شکارر ہیں۔

ملک کی دوسری جماعتیں پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے مذاکرات کی شدید مخالفت اور آپریشن کی بر ملا حمائت کی گئی۔ مذہبی صف میں اہل تشیع اور بریلوی مسلک کی تقریباً تمام جماعتوں نے مذاکرات کی مخالفت کی جبکہ طالبان میں اثر و رسوخ رکھنے والی جماعتوں، اہلحدیث، اہل سنت والجماعت اور علماء کو مشاورت سے دور رکھا گیا۔ رہا مسئلہ پاک فوج کا تو صاحب فوجیوں کامزاج لڑنے کا ہوتا ہے لہذا اُنکا مذاکرات سے کیا واسطہ ۔

!!!اب ایسے حالات میں جہاں اتفاق رائے پیدا کرنے کی سر سری کوشش کی گئی ہو وہاں مذاکرات کا نتیجہ نشستاً،گفتاً اور برخاستاً کے علاوہ اور کیا نکل سکتا ہے۔۔!!
مذاکرات کیلئے حکومت کی جانب سے یہ شرط کہ طالبان اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں بند کریں۔ریاست کی رٹ اور آئین پاکستان کو تسلیم کریں تو بات چیت شروع کی جا سکتی ہے،دراصل مذاکرات کے لئے تیار نہ ہونے کے مترادف ہے، کیونکہ مذکورہ سب شرائط تسلیم کروانے کے لئے تو مذاکرات کئے جاتے ہیں۔

مذاکرات یا معاہدہ کرتے وقت عقل اوروقت کی نزاکت سے کام لیا جاتا ہے نہ کہ جذبات اور دباوٴ سے۔ہمارے نبی اکرم نے ” معاہدہ ء حدیبیہ“ کے موقع پر قریش کی جانب سے توہین آمیز شرائط کے باوجود دیر پا مفادات کے حصول کیلئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن سے مذاکرات کئے۔ جنگی قائدے قوانین کے مطابق بھی مذکورہ باتوں پر عمل دونوں فریقوں پر لازم ہوتا ہے کیونکہ کاروائی یک طرفہ نہیں دونوں ا طراف سے جاری ہے ۔

۔ایسے ماحول میں مخالف فریق ڈیڑھ دن کی مصالحتی میٹینگوں سے سر تسلیم خم نہیں کر سکتا۔۔۔اگر یہ سب کچھ اتنا ہی آسان ہوتا تو سات سال سے پہلے ہو چکا ہوتا۔۔۔۔۔رہی بات حکومتی رٹ تسلیم کرنے اور اسلحے کے زور پر بات بات منوانے کی تو جناب یہ تو ہمارے یہاں کا برسوں پرانا رواج ہے۔۔۔ یہاں حکومتی رٹ تسلیم کرتا کون ہےَ؟ اسلحے کے بغیر بات کرتا کون ہے؟؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے بلوچستان اور کراچی میں کب سے رٹ تسلیم کی جانے لگی ہے؟؟ یہاں کس کے پاس اسلحہ نہیں ہے ؟؟ پورے ملک کا یہی حال ہے فرق صرف اتنا ہے جسکا جتنا زور چلتا وہ اُتنی من مانی کرتا ہے۔

ورنہ یہ آئین وائین کس چڑیا کا نام ہے !!!۔یہاں آئین بنانے والے آئین کو نہیں مانتے تو دوسرا کیوں مانے ۔ گذشتہ پینسٹھ سالوں میں کس کس نے کتنی کتنی بار آئین کو تسلیم کیا یا اسکا احترام کیا یہ ہم سب جانتے ہیں۔!!!! آئین کا نفاذ اور اس پر عمل درآمد اُسکی روح کے مطابق کیا گیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔
حکمرانوں کی طفلانہ سوچ کا یہ عالم ہے کہ ملک کو محفوظ بنانے چلے اور اپنے غیر مدبرانہ فیصلوں سے اپنے ہی لوگوں کو اپنے خلاف کر لیا۔

پہلے کیادشمن کم تھے جو اپنوں کو فتح کرنے کے چکر میں مذید پال لئے۔۔۔ ! دہشتگرد تو ہمیں مار ہی رہے ہیں کیونکہ اُنکا تو مشن ہی یہی ہے۔۔۔مگرہمارے حکمرانوں کا کیا مشن ہے؟؟ طالبان اگراسلحے سے مار ہے ہیں تو حکمران اپنے نا اہل اور غیر سنجیدہ فیصلوں سے ۔ دہشت گرد اپنی کاروائیاں اتنے منظم انداز میں کرتے ہیں کہ اُنہیں جسے مارنا ہو جہاں مارنا ہووہ مار دیتے ہیں۔

ریاست سے اُنکی ڈیمانڈجو کل تھی وہی آج ہے اورجو فیصلہ اُنہوں نے کل کیا تھا اُسی پروہ آج بھی قائم ہیں۔۔۔ ادھر ہم ہیں کہ نہ تو کسی ایک بات پر قائم رہتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کر پاتے ہیں۔ اگر کوئی فیصلہ کر بھی لیتے ہیں تو ہیچاں کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ خطے میں عالمی ایجنسیوں کا گندا کھیل عروج پر ہے جبکہ ہماری ایجنسیاں سیاستدانوں کی نقل حرکت ریکارڈ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں تو معاملات کو حکمت اور باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے۔ بستی دنیا میں مذاکرات یا آپریشن دونوں کی گنجائش ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے ایسی صورتحال کا مدبرانہ سوچ سے جائزہ لیا جائے ۔ ملک کی چھوٹی بڑی تمام جماعتوں بشمول مذہبی، اقلیتی اور سیکورٹی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے،اُن کے مابین اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور مظبوط حکمت عملی وضع کرتے ہوئے فیصلے کئے جائیں۔ بصور ت دیگر مذاکرات یا آپریشن سے نہ صرف مطلوبہ نتائج کاحصول نا ممکن ہوگا بلکہ خطرات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا اور پھر یہ سلسلہ شائدمذید پینسٹھ سال تک چلتا رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :