دوست نما دشمن

منگل 25 فروری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

نپولین بونا پاٹ دشمن ملک کے کسی علاقے پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں ایسے جاسوس داخل کر دیتا جو وہاں مایوسیاں پھیلا دیتے۔ جب مایوسیاں پھیلتیں تو ان میں مقابلہ کرنے کی سقت ہی باتی نہ رہتی اور وہ آسانی سے فتح ہو جاتے۔چنگیز اور ہٹلر پہلے اپنے پانچویں کالم کے افراد ( مایوسی پھیلانے والا عملہ) دشمن کے ملک میں بھیج کر وہاں کے لوگوں میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلاتے تھے اور وہ حملہ آوروں کا مقابلہ ہی نہ کر سکتے، اس کے بعد پھر ان پر فتح پانا آسان ہو جاتا تھا کیونکہ وہ مقابلہ ہی نہ کر سکتے تھے۔

اگر وہ مقابلہ کرتے بھی تو بے دلی اور بے یقینی سے اس لئے شکست کھاجاتے تھے۔جس قوم میں مایوسی پھیل جائے وہ مفلوج ہو جاتی ہے نہ وہ اندرونی برائیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے اور نہ بیرونی حملے کا۔

(جاری ہے)

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جدوجہد کاوش سے منہ مو ڑ کر سستی ،کاہلی اور شکست خوردگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اَبلیس کے لفظی معنی مایوسی کے ہیں اور مایوسی پھیلانا ہی اس کا سب سے بڑا حربہ ہے۔

چوکوں چوراہوں بازاروں محفلوں دفتروں ہوٹلوں اور گھروں میں جو گفتگو ہورہی ہے اس کا لبِ لبا ب یہ ہے کہ خاکم بدہن پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹنے والا ہے۔ہمارے بزرگ،ہمارے مبلغ معاشرے میں مایوسی پھیلا کر سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ہمارے سیاست دان اپنی حریف جماعت کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لئے، اَسے بے وقعت کرنے کے لئے،اِسے ذلیل اور بے عزت کرنے کے لئے اُس کے تاریک پہلو پیش کرتے ہیں۔

عوام کی اکثریت کا ذہنی لیول اس سطح کا نہیں ہوتا کہ وہ سمجھ سکیں کہ جو تصویر پیش کی جارہی ہے وہ تومحض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے پیش کی جارہی ہے۔وہ سیدھے سادھے انداز میں حالات کے دکھائے گئے تاریک پہلوؤں کو دیکھتے اور مایوس ہوتے ہیں۔اخبارات کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ جب تک گاہک کو خوف زدہ نہ کیا جائے وہ اخبار نہیں خریدتا۔وہ محض اپنا اخبار بیچنے کے لئے خوف اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔

اُن میں قتل و غارت لوٹ کھسوٹ بے انصافی بے راہ روی کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے کہ صبح ہی صبح اخبار دیکھنے کے بعد چستی تازگی اور کام کی لگن ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔تازہ دم بندہ جمائیاں لیتے ہوئے بے زاری کی حالت میں گھر سے نکلتا ہے۔مبلغ حضرات کو بغیر کوئی پیسہ خرچ کئے ، بغیر کوئی تکلیف اٹھائے ،بغیر کسی کاوش اور محنت کے ہر جمعہ ایک خاموش اور ساکت مجمع مل جاتا ہے۔

اس مجمعے کے باشعور افراد کو بھی نہ تو اٹھ کر سوال کرنے کی جرات ہوتی ہے،نہ تنقید کرنے کی اجازت ہوتی ہے، نہ اخلاف کر سکتا ہے بس سر نیہوڑے ادب سے سب کچھ سنتا رہتا ہے۔ایسی حالت میں مبلغ کو آزادی ہوتی ہے کہ اس کا جو جی چاہے کہتا چلا جائے۔ایسے میں مبلغ اپنے ذہنی رحجان، اپنی طبیعت کے میلان، اپنے ذاتی معاشی اور معاشرتی حالات کے مطابق بولتا ہے۔

اگر ایک مبلغ کو معاشرے میں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملے اور نہ اس کی اولاد کو مواقع ملے ہیں تو وہ چونکہ خود مایوس ہے اس لئے مایوسی کی تبلیغ کرے گا۔بڑے عام طور پر عزت و تکریم اور شرم و حیا کی وجہ سے آگے سے نہ بولنے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ عام طور عمر کے اُس حصے میں ہوتے ہیں جب زندگی کی دلچسپیوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہتا۔ وہ زندگی کی ہر چیز سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں تو وہ زندگی کے تاریک پہلو دیکھنے لگتے ہیں۔

اسی مایوسی کے زیرِ اثر وہ بولتے ہیں اور اپنے زیراثرِ لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اِن کی گفتگو کچھ اس انداز کی ہوتی ہے ’زمانے میں پیار و محبت اٹھتا چلا جا رہا ہے، حیا شرم تو نام کو نہیں رہا،جس طرف دیکھو دنگا فساد جس طرف دیکھو بے امنی،بھائی کو بھائی مار رہا ہے اور بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے‘ جائیں تو جائیں کہاں۔ ایسی گفتگو سننے کے بعد سامع کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جیسے اُس کے جسم سے انجکشن کے ذریعے توانائی کھینچ لی گئی ہو۔

یہ خرابیاں معاشرے میں دورِ قدیم سے چلی آ رہی ہیں اور ساتھ ساتھ چلتی رہیں گی ،انکا پرچار کر نا گویا قوتِ عمل سلب کرناہے ۔اس سے ابھرتی ہوئی جوانیاں دفاعی بن جاتی ہیں۔ ان میں خطرہ مول لینے، رسک لینے ،آگے بڑھنے، کچھ کر گزرنے کے جذبے ماند پڑ جاتے ہیں۔یہ کا م سیانی عمر کے لوگ کسی وقتی فائدے ،کسی مصلحت یا کسی ناسمجھی کی وجہ سے کرتے ہیں لیکن اس سے معاشرے کی قوتِ عمل مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔

مایوسی نااُمیدی ،شیطان کا ایک بہت بڑا ہتھیا ر ہے۔ اس ہتھیار کے ذریعے شیطان انسان کی روح پر کئی طرح کے وار کرتا ہے اور اُسے زندگی کی جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں رہنے دیتا۔شیطان، انسانی روح پر انفرادی طور پر بھی مایوسی کے وار کرتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی ۔انفرادی طور پر مایوسی پھیلا کر شیطان چستی ، گرمجوشی،توانائی یا کچھ کرنے کی تحریک کو ختم کر دیتا ہے۔

اجتماعی طور پرمایوسی سے پوری قوم کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔اُس قوم میں ترقی کرنے آگے بڑھنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔نہ وہ قوم اندرونی برائیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے نہ بیرونی حملے کا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہی کی دلدل میں نیچے ہی نیچے دھنسی چلی جاتی ہے۔ کسی بڑے سردار کی اگر کوئی آکے پناہ لے لے تو وہ اُس لج کو پالتا ہے۔ وہ پناہ لینے والے کے دشمن سے لڑتا ہے اور اگر نقصان اٹھانا پڑے تو فخر سے نقصان اٹھاتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے۔ وہ لج پال اللہ اِسے کبھی بھی تباہ یا برباد نہیں ہونے دے گا۔ اسے پھلنا پھولنا ہے۔اسے ترقی کرنا ہے۔ اس کے عوام نے خوشحالی کی بہاریں دیکھنی ہیں۔انشا اللہ وہ وقت آنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرنا اتنا بُرا فعل ہے کہ حدیث شریف کے مطابق بنی اسرائیل کا ایک عابد و زاہد صرف اسی وجہ سے جہنمی ہوگیا کہ وہ مایوسی پھیلاتا رہتا تھا۔

۔اُمید ہی زندگی ہے۔اُمید کی وجہ سے ہی رونقِ جہاں ہے۔ کائنات کے سارے معاملات اللہ تعالیٰ کے مضبوط ہاتھوں میں ہیں ۔ کوئی کام اس کے حیطہ اختیار سے باہر نہیں پھر آدمی مایوس کیوں ہو۔قرآن میں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدی گمراہوں کا شیوہ ہے(۲۹۔۲۳)۔مایوسی کے بارے میں حضرت محمدﷺ کی اس خوبصورت دلنشیں حدیث کے بعد مایوس رہنے کا کوئی جواز باقی رہ ہی نہیں جاتا۔

حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر محشر بھی برپا ہو جائے تو ناامید نہ ہو۔مایوسی سے بچنے کے لئے سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے،علامہ صاحب کا شعر ہے کہ
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگی انگبیں( سخت کوشش سے زندگی کی دتلخیاں شیریں ہو جاتی ہیں)
جارج برنارڈ شاہ نے کہا ہے کہ دکھی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس کافی وقت ہو اور وہ بے کار بیٹھا یہ سوچتا رہے کہ کیا وہ حقیقت میں دکھی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مبلغوں کو کوئی تبلیغ کرے کہ مایوسی کی تبلیغ سے باز آ جائے۔اگر اوپر بیان کردہ مایوسی پھیلانے والے ذرائع اپنا قبلہ درست کر لیں اور مایوسی کی بجائے امیدیں بانٹنا شروع کر دیں تو یقینا اس طرح مثبت تبدیلی آئے گی۔ جدوجہد کی تبلیغ اور جوش دلانے سے رُکی ہوئی مشینری حرکت میں آجائے گی۔نوجوانوں میں کچھ کر گزرنے کے جذبے کومسمار کرنے والے ملک دشمن ہیں ان کی مذمت کریں۔آئیے عہد کریں کہ مایوسی نہ خود پھیلائیں اور نہ پھیلانے دیں گے۔
نہیں نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑے زرخیز ہے ساقی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :