خواتین کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد لمحہ فکریہ

پیر 24 فروری 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

انسانی جان کی بے حرمتی کے حوالے سے پاکستان میں بہت بری صورت حال بتائی ہی نہیں جاتی عملاً ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں خواتین کی حالت زار کا نقشہ کھنچتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ خواتین کے حوالے سے پاکستان کا دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا جارہا ہے پاکستان بھر میں ایک سال کے اندر 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔


ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی میں (یو ایچ ایس)” آنر کلنگ“ کے حوالے سے ایک لیکچر میں مقررین نے پاکستان میں خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس صورت حال کو افسوس ناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہا یک ایسے معاشرے میں جو خود کو اسلامی روایات کا پاسدار بھی کہتا ہو وہاں خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ شرمناک حد تک غیر انسانی ہے مقررین کا کہنا تھا حکومت کو خواتین کے کلاف ہونے والے جرائم پر قابو پانے کے لئے موثر اقدمات کرنے ہونگے اس کے لئے ضروری ہے کہ قانون سازی کے ساتھ جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد کریا جائے
جب کہ دوسری جانب ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاونڈیشن نے اپنی سہہ ماہی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات تو پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن اب یہ واقعات منظر عام پر آنا شروع ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

تنظیم کے عہدیدار ہارون داوٴد نے بتایا ہے کہ اب بھی کئی ایسے واقعات ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر منظر عام پر نہیں آسکے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین ماہ میں دو سو بیس واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے ستاسی عورتوں پر جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ خواتین کے حوالے سے تشدد کے واقعات میں چھپن خواتین اور گیارہ مرد ہلاک ہوئے ہیں۔اب عورتوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور مردوں کو کارو قرار دے کر جرگوں کے زریعے تاوان وصول کیا جاتا ہے جو لاکھوں روپوں میں ہوتا ہے اور یہ ایک طرح کا کاروبار بنتا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان چھپن خواتین میں سے اڑتیس خواتین کو ’سیاہ کاری‘ کے الزام میں قتل کیا گیا ہے، چار عورتوں نے گھریلو حالات کی وجہ سے خود کشی کی ہے، ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، تیرہ خواتین پر گھریلو تشدد ہوا اور سترہ خواتین اغوا ہوئیں۔رپورٹ میں مختلف واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا مشہور واقعہ شامل ہے۔


اس طرح کی رپورٹس تو اپنی جگہ مگر ہمارے ہاں شہروں میں خواتین کے ساتھ جو انسانیت سوز واقعات ہوتے ہیں ان میں بعض تو ریکارڈ پر ہی نہیں آتے کھ خوف کے مارے نہیں لائے جاتے اور کئی واقعات پولیس کی سرد مہری یا روایتی طریقہ کار کی وجہ سے سامنے نہیں آتے نظام انصاف اور نطام قانون پاکستان میں شہریوں کو قانونی مدد اور انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی شاندار تاریخ نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے woman کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز ( GenderDiscrimination ) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔

مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906)۔ Anthony B Susan کا نام نمایاں ہے جس نے Woman's Suffrage Association National قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے منصفانہ بھرتی اور زچگی کی چھٹی کی منظوری دی گئی۔

سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Montana Jeanette Rankin of پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔
اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔

جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں خواتین کے کردار کا مندرجہ بالا تذکرہ اس کی عملی نظیر پیش کرتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے بغیر معاشرہ نہ صرف ادھورا ہے بلکہ معاشرے کا وجود ہی عورت کا مرہون منت ہے ،وجود زن سے ہے کاینات میں رنگ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے ساتھ کس طرح ظلم و جبر کا بازر گرم ہے گو کہ ریاست نے اب خواتین کے حقوق کے متعلق بہترین قانون سازی کی ہیں جس پر عمل درامد ہو جاے تو خواتین استحصال،ظلم و جبر سے بچ سکتی ہیں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں کافی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور خواتین پر ہونے والی ناانصافی پر آواز بھی اٹھا رہی ہیں ۔


گو کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل، تیزاب سے حملوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے حالیہ برسوں میں نئی قانون سازی بھی ہوئی ہے۔تاہم پاکستان میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے اور ہماری انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے کی ضرورت ہے۔جب تک گورننس کا کمزور نظام بہتر نہیں ہوتا ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہاں ضروت بھی اس امر کی ہے کہ حکومتی مشینری کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف ہر سطع پر آواز آٹھانی چاہیے،حکومت اور معاشرہ مل کر ہر برائی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :