سوسُنار کی ایک لوہار کی

پیر 24 فروری 2014

Amjad Javed

امجد جاوید

مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے بھی اپنے تھڑے کے ان خاص اراکین میں شامل ہیں ، جن کی زبان پر عوامی رائے زنی کے لئے کھجلی ہوتی ہی رہتی ہے۔وہ کچھ عرصہ قبل ہی محلے میں وارد ہوئے ہیں اور آتے ہی اپنا پان زدہ پوپلا منہ اور گلکاری زدہ کُرتا لے کافی دنوں سے تھڑے پر اس طرح باقاعدہ حاضری دے رہی ہی ،جس طرح امریکہ القاعدہ سے مسلسل ڈر رہا ہے۔

انہیں دیکھ کر نجانے کیوں مولا جٹ فلم یاد آنے لگتی ہے۔اصل میں وہ پان کھا کر کُرتا خراب کر لیتے ہیں اور لگتا ہے کہ خون خرابہ کئے پھرتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے وہ نوری نت کی طرح آہستہ آہستہ بات کرتے تھے ۔تاہم لیکشن کے بعد وہ مولا جٹ کی طرح گندے گندے منہ بنا کر، اور چیخ چنگاڑ کر باتیں کرنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ مغلیہ بادشاہوں اور لوہاروں کے درمیان انجانا تعلق بھی بہت دھڑلے سے پیدا کرنے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت تو ان کی حالت دیدنی تھی ، جب شیر مارکہ سیاسی پارٹی دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیت کے حکومت بنانے کی اہل ثابت ہو گئی۔لہذا تب سے اُن کے لب پر ترانے کی مانند یہ محورہ رہتا ہے کہ ” سو سنار کی ایک لوہار کی“۔ اور یہ محاورہ وہ فقروں میں بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ ایک دو فقرے مثال کے طور پر عرض ہے۔
”اماں دیکھا۔! حکومت بنانا اسے کہتے ہیں، کسی کی ضرورت محسوس نہیں کی، بھان متی کا کنبہ نہیں جوڑا،مفاہمت کے نام پر منّت ترلّا نہیں کرنا پڑابس ایک ہی ہلّے میں جیت گئے، اسے کہتے ہیں سو سنار کی ایک لوہار کی۔


” ایک ڈکٹیٹر نے ان کی حکومت پر شب خون مارا، تب سے لیکر حکومت بنانے تک،ہر مصیبت کو جھیلا،کمالِ مردانگی سے دشمنوں کے وار سُنار کی چوٹوں کی طرح سہے، اب لوہار کی ایک ہی ضرب سے دشمنوں کو چت کر دیا۔ اسے کہتے ہیں سو سنار کی ایک لوہار کی۔“
اس د ن مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے کی میاں شبراتی بہانے باز کے خواہ مخواہ کی اَڑ پھس ہوگئی۔

جس دن لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں یہ بیان آ گیا کہ ابھی تین سال لگیں گے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ لوڈ شیدنگ ایک دم سے ختم ہوگئی تھی ۔ میاں شبراتی نے چونکہ نیا نام ازبر کر لیا ہوا تھا ، لوڈ شیڈنگ کے وقت تبصرہ نگاری کے لیے اس لئے وہ بہت جز بز ہو رہا تھا۔ میاں شبراتی نے بُڑبُڑ کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا۔
” ارے مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے یہ تیری پسندیدہ حکومت والے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق کیا کہہ رہے ہیں ، لوڈ شیڈنگ کے بارے، کیا میں پھر سے ان پر بھی اپنا تبصرہ کرنا شروع کر دوں“
تب مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے نے کچھ گبھرا کر اور زیادہ بھنّا کر کہا۔

” دیکھ بھئی میاں شبراتی بہانے باز۔۔۔انہوں نے سچ کہا ہے، جھوٹ تھوڑی بولا ہے۔آج کل تو نہیں کی نا، ایکدم سے بتا دیا کہ تین سال لگیں گے، چاہے کسی کا دم نکلے، سُنار کی چوٹوں کی طرح بہانے نہیں کئے،لوہار کی ضرب ماری ہے، اسے کہتے ہیں سو سنار کی اور ایک لوہار کی۔“
اور اس دن تو بجٹ تقریر سُن کر جو میاں شبراتی بہانے باز اپنی مخصوص قسم کی تبصرہ آرائی کے کے ساتھ جو گھر سے نکلے تو سیدھے تھڑے پر آگئے۔

وہ پہلے ہی جلے بھنے بیٹھے تھے اوپر سے مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے بھی آگئے۔
” ابے مرزا دیکھ۔! یہ تیری حکومت نے کیا کیا، جس کے بارے تو پان کی پیک کی مانند رسرخ اللسان رہتا ہے،مہنگائی زیادہ کردی۔ اور عوام کو کسی قسم کا ریلیف بھی نہیں دیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ چاہے سارے ترقیاتی کام روک کر لوڈ شیڈنگ کو جنگی نیادوں پر ختم کرنے کے واسطے، پوری قوت ، توانائی کے بحران کو قابو میں کرنے پر لگاتے۔

جیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہ ایک سال کے لئے نہیں بڑھائی، اور کڑوی گولی دے دی اگلے سال بڑھانے کا وعدہ کر لیا۔ کوئی زرعی ٹیکس نہیں لگا۔ جو لوگ خزانہ خالی کر گئے اور ملک کو قرضے میں ڈبو گئے، ان سے رقم نکلوانے کی کوئی بات نہیں ہوئی، اب بتا یہ عوام کا کیا قصور ہے ؟“
اس پر مرزا خواہ مخواہ لوہاری گیٹ والے والے مسکرائے اور پان کی پیک تھوک کر بولے” ابے میاں شبراتی بہانے باز تُو تو ہے ہی بے وقوف، تجھے کیا پتہ حکومت کرنا کسے کہتے ہیں، ابے گھامڑ، انہیں اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہیں ہوتی ،اب تیرا ان کے ساتھ کیا لینا دینا ریلیف تو انہیں دیا جاتا ہے جن کا ووٹ لینا ہوتا ہے۔

اب پانچ سال انہیں تیرے ووٹوں کی ضرورت نہیں، جن کے ووٹوں کی ضرورت ہے ریلیف بھی انہیں ہی ملے گا، باتیں کرتا ہے، عوامی ریلیف کی۔ اسے کہتے ہیں سو سنار کی ایک لوہار کی۔“
ظاہر ہے تھڑے پر خاموشی ہی طاری ہونا تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :