طالبان کے طوطے

جمعہ 21 فروری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

پاکستانی فوج کی ایک ہی کاروائی کے نتیجہ میں جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں40 کے قریب دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور ان کے خفیہ ٹھکانے بھی تباہ کر دیئے گئے ہیں قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ازبک، ترکمان،تاجک اور کا لعدم تحریک طالبان شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور اسلحہ و بارود کے زخیروں کو تباہ و بر باد کر دیا گیا خبروں کے مطابق ان حملوں میں بعض اہم کمانڈرز بھی ہلاک ہو ئے ہیں جو د ہشت گردی کے منصوبوں اور تیاریوں کے ذمہ دار ہوتے تھے اس پہلی کاروائی پر حسب توقع انہی کی طرف سے ردعمل سامنے آیا جو اس موجودہ صورت حال کے ذمہ دار ہیں یعنی کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔

جماعت اسلامی کے امیر نے اس طرح حکومت سے اس بات کی وضاحت مانگی ہے کہ وزیراعظم جواب دیں کہ یہ پاک فوج کی کاروائی کس کی اجازت سے ہوئی ہے اور یہ کہ کیا حکومت نے باقاعدہ آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے کہ گویا حکومت ان کے ماتحت تھی؟ اسی طرح پرو فیسر ا برا ہیم سابقہ کمیٹی کے ممبر جماعت اسلامی نے بھی اس حملے کو بد ترین کاروائی قرار دیا ہے اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ جماعت اسلامی حقیقت میں ان طالبان کا طوطا ہے اس کے اندر انہی طالبان کی جان ہے جب بھی ان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یہ جماعت شدید ردعمل ظاہر کرتی ہے اور اس کو سخت تکلیف ہوتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے اور زخمی طوطے کی طرح تڑپتی ہے اس اسے قبل انہی طالبان نے بدترین طریقے سے 23پاکستانی فوجیوں کو شہید کرکے ان کی بے حرمتی کی،پشاور میں ایک میجر کو شہید کیا اور کراچی میں پولیس کی گاڑی کو خود کش دھماکے سے تیرہ پولیس والوں کوشہید کیا لیکن ان سب شہادتوں پر جماعت اسلامی خاموش داد دے رہی تھی،اس کے نزدیک ان شہادتوں کی کوئی وقعت نہیں تھی اور صرف وہ طالبان جو فوج کی کاروائی کے نتیجہ میں ہلاک ہوتے ہیں وہی شہید ہیں۔

(جاری ہے)

طالبان کے ان طوطوں کو اب پکڑنے کا وقت آگیا ہے۔وزیر داخلہ نے جماعت اسلامی کے مطالبے کاجواب دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی سپاہیوں کی شہادت کے بعد حکومت اور عسکری قیادت نے کاروائی کا فیصلہ کرلیا تھا اسی طرح وزیر دفاع نے بھی اس امر کا اظہار کیا کہ اب مذاکرات اور دہشت گردی اکھٹے ممکن نہیں۔یہ بات خوش آئیند ہے کہ دیر آمد درست آمد بالآخر اپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا قوم اس پر بہت خوش ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وطن دشمن عناصر کی نہ صرف سرکوبی کی جائے گی بلکہ ان کو منطقی ا نجام تک بھی پہنچایا جائے گا گو یہ اس کا ردعمل میں اندرونی طور پر طالبان کے طو طے شور مچائیں گے لیکن اس مزید کوتاہی کا وطن عزیز متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس وقت پاکستان کو حقیقی معنوں میں اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے اور یہ موجودہ وقت سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے از مائش کا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اس امتحان میں سر خرو ہوتے ہیں اور ملک کہ ہچکولے کھاتی ناؤ کو طوفان سے نکال کر کنارے لگاتے ہیں وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد کی سیکورٹی کے بارے میں حالیہ بیان نہایت تشویشناک ہے۔

اسلام آباد وفاقی دارالخلافہ ہے اس بارے ریاستی اداری کی رپورٹ سیکورٹی اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے،اسی شہر میں مولوی عبد العزیز بیٹھا آئین کے خلاف ہرزہ رسائی کر رہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں غفلت کی نیند سونے والے اداروں کو بیدار کر نے کی ضرورت ہے ان طوطوں کی گردننے موڑورنے کا وقت آگیا ہے جن میں دہشت گرد جنوں کی جان ہے۔سوال یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھیوں کو اپنے اپنے گھروں میں پناہ دینے والوں کے خلاف کیا کاروائی ہو ئی ہے؟؟؟نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ اب ہوتی د کھائی دیتی ہے اور اگر پہلے قانون حرکت میں آیا ہوتا تو شائد یہاں تک کے حالات کی نوبت نہ آتی۔

اب پاکستان میں اندھے قانون کو حرکت میں آنا چاہے اورملکی مفاد میں وطن دشمن عناصر کا ساتھ دینے والوں کو آہنی ہاتھ سے پکڑنا ہو گا۔اندرونی طور پر ان خطرناک حالات میں ایران نے بھی اپنی فوجیں پاکستانی حدود میں داخل کرنے کی د ھمکی دی ہے جو کہ ایک حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔موجودہ حکومت اور دفاعی ادارے حقیقی معنوں میں ازمائش سے دوچار ہیں آج کے حا لات کا ذمہ دار کسی ایک جماعت کو نہیں قرار دیا سکتا تاہم اندرونی دشمنوں اور مخالفین پاکستان کو کھلی چھٹی دینے میں سب جماعتیں برابر کی ذمہ دار ہیں اور ان میں فوجی حکومتوں کا تو بہت ہی عمل دخل ہے بلکہ ضیاء ا الحق کا بویا ہوا پوری قوم کاٹ رہی ہے اور ان طالبان کی دیدہ دلیری د یکھیں کہ پاکستانی فوج کواپنی مرضی کے مطابق شرطیں منوانے کا پیغام دیتے ہیں سرکاری پندرہ افراد کے مقابلے میں اپنے دو سو کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں اس کے بعد بھی طالبان کے مطالبوں اور بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی باقاعدہ ریاست ہے جو پاکستان کے مقابلے پر ہے جس کو باقاعدہ اندرونی اور بیرونی امداد اور معاونت حاصل ہے،جدید اور نہ ختم ہونے والا اسلحہ اور افرادی قوت بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔


موجودہ صورت حال کی سنگینی کے بارے میں وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے جو بیان دیا ہے وہ کوزے میں دریا بند کر دینے کے مترادف ہے انہوں نے کہا ہے کہ ملائیت سے پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ ہے ا نتہا پسندی پاکستان کے لئے روگ بن گئی ہے اور ہم دنیا میں کسی کو منہ د کھانے کے قابل نہیں رہے اور ہم طالبان سے خوفزدہ نہیں ہیں نہ ہار مانے گے۔یہ حقیقت میں ایک ایسا بیان ہے جو قوم اور بانی پاکستان کے تصورپا کستان کی عکاسی کر تا ہے ایک وفاقی وزیر کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔

المیہ ہماری سیاست کا یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی نازک وقت میں ایک ساتھ مل کر حالات کا مقابلہ کرنے کی روایت جنم نہیں لے سکی لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس طرح کی مثبت سیاست کی بنیاد ڈالی جائے اور حالات کا مقا بلہ کیا جائے کراچی میں ایس ایس پی اور پشاور میں میجر جہاں زیب کی شہادتیں قوم بھلا نہ پا ئے گی۔آج عمران خان اور پی پی پی نے ان حالات میں ملک اور قوم کے مفاد میں عوام کا ساتھ نہ دیا تو وہ کل کو حکومت کرنے کے اہل نہ ہو سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :