ایرانی وزیر داخلہ کی دھمکی اور اہل سنت کا موقف

ہفتہ 22 فروری 2014

Muhammad Younas Qasmi

محمد یونس قاسمی

گذشتہ دنو ں ایرانی وزیر داخلہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس کے مغوی سرحدی محافظوں کی بازیابی کیلئے کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ایرانی فورسز پاکستان میں گھس کر فوجی کارروائی کرسکتی ہیں۔یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر تھے اور دونوں ملکوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت ہورہی تھی۔

ایسے میں ایران نے جو سخت گیر موقف اپنایا ہے یہ ایک دوست کی طرف سے کسی صورت اچھے رویے کا اظہار نہیں ہے۔ممکن ہے ایران کو پاک سعودی تعلقات میں اضافے پر خوشی نہ ہواور ہمیں خبردار کرنا ضروری سمجھا ہو کہ ہماری سرحد پر ایک طرف ایران بھی بیٹھا ہوا ہے۔پاکستان میں گھس کر حملہ کرنے کی دھمکی ایک ایسے ملک کی طرف سے آئی ہے جس کے مفادات کا ہم ہمیشہ مکمل تحفظ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ایران نے پاکستان میں گھس کر کارروائی کرنے کی دھمکی ہوبلکہ واقعتاایرانی سرحدی محافظین کئی بار سرحدی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں داخل ہو کر کارروائی کرچکے ہیں۔پاکستانی علاقوں میں ایرانی سرحدی محافظ کئی لوگوں کو ہلاک اور کئی لوگوں کو اغوا کرچکے ہیں۔اکثروبیشتر ایرانی افواج پاکستانی علاقوں میں شیلنگ اور بمباری کرتے رہے ہیں۔

سرحدی علاقوں میں راکٹ داغ کر پاکستان کی سلامتی کو متعدد بار ایران چیلنج کرچکاہے۔پاکستان میں دیگر جماعتوں اور قائدین کی بنسبت اہل سنت والجماعت نے ایران کی اس دھمکی کا سخت نوٹس لیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایرانی سفیر کو بلا کر اس دھمکی کا جواب طلب کرے۔پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ فسادات کا ذمہ دار اہل سنت قائدین نے ہمیشہ ایران کو قرار دیا ہے اورپاکستان میں ایرانی سرگرمیوں اور مذہب کے نام پر ایرانی مداخلت کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔

اہل سنت والجماعت نے ایران کی موجودہ دھمکی کے بعد جو موقف اپنایا ہے اسے ہم یہاں من وعن نقل کررہے ہیں۔
”1979ء کے انقلاب کے بعد ایران نے مسلم ممالک میں بالعموم اور ہمسایہ ممالک میں بالخصوص مداخلت شروع کی۔ان ممالک میں ایران نے اپنے سفارت خانوں اور خانہ ہائے فرہنگ کے ذریعے دل آزار لٹریچر،اسلحہ اور پیسہ کی تقسیم کا آغاز کیا۔مذہبی انتہا پسندوں کو مختلف سفارتی عہدے دیکر پاکستان بھیجاجنہوں نے تمام تر سفارتی آداب ورموز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے متفقہ عقائد ونظریات کی تضحیک کی بلکہ بانیان اسلام حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام اور ازواج مطہرات  جیسی متفقہ شخصیات کی جدوجہد اور قربانیوں کو مشکوک کرنے کی کوشش کی۔

پاکستان میں خانہ فرہنگ کے نام سے قائم کئے گئے سنٹر فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دینے کے لیے زہریلا لٹریچر تقسیم کر رہے ہیں ۔ثقافت کے نام پرہزاروں پاکستانیوں کو سفارتی تقریبات میں بلا کر یا ایران لے جا کر ایرانی انقلاب کو پاکستان میں درآمدکرنے کیلئے ذہن سازی کی گئی اور ہزاروں صفحات پر مشتمل فارسی اور عربی لٹریچر کا اردو ترجمہ پاکستان میں بھیجا گیاجو یہاں کی اکثریتی آبادی کی دل آزاری کا سبب بنا۔

80کی دہائی میں پاسداران انقلاب ایران کے اہلکاروں نے کوئٹہ میں مسلمانوں پر حملہ کیا،معصوم طالبات اورمحکمہ پولیس کے اہلکاروں کو قتل کیا۔وہ لوگ یہاں گرفتار ہوئے ،ان سے تفتیش ہوئی،ساری بات کھل کر سامنے آگئی مگر اس وقت کی حکومت نے انہیں بحافظت تہران پہنچا دیا تاکہ پاک ایران تعلقات خراب نہ ہوں۔کراچی میں ایک شیعہ جلوس کی قیادت ایرانی قونصلر نے کی اور وہاں اہل سنت کا قتل عام ہوا مگر پاکستانی حکومت کی شکایت کے باوجود حکومت ایران نے محض رسمی مذمت پراکتفا کیا۔

ایرانی سفارت کار پاکستان میں شیعہ تعلیمی اداروں،ماتمی جلوسوں،مجلسوں میں کھلم کھلا جاتے ہیں اور شیعہ لیڈروں سے ایرانی سفارت خانے سے باہرملاقاتیں کرتے ہیں جو کہ سفارتی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،ہمارے احتجاج کے باوجود حکومت ایران نے کبھی ایرانی سفارت کاروں کو سفارتی قوانین کا پابند نہیں بنایا۔ایران کے سیکورٹی گارڈ جب چاہیں پاکستانی حدود میں داخل ہوکرکسی کو بھی نشانہ بنا ڈالیں،جب چاہیں میزائل داغ دیں کوئی روک ٹوک نہیں ۔

بلوچستان کی موجودہ منتخب جمہوری نمائندوں کے احتجاج اور وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے تحفظات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ایران کے ساتھ ہونے والی تجارت کے نتیجہ میں پاکستان آنے والی اشیاء کو قرآن مجیدکے صفحات میں لپیٹ کر بھیجا جاتا رہا ،ہمارے احتجاج کے باوجود کبھی حکومت ایران نے ان چیزوں کو روکنے کی یقین دہانی نہیں کروائی۔ایران نے پاکستان کو مطلوب ان دہشت گردوں کو پناہیں فراہم کی ہوئی ہیں جو پاکستان میں جید علماء کرام کے قتل میں ملوث ہیں۔

ایران اب بھی اسلحہ اور فنڈ دہشت گرد تنظیم سپاہ محمد فراہم کررہا ہے۔گذشتہ دنوں کراچی میں پکڑا جانے والا ایک گروہ اور پشاور میں تبلیغی جماعت کے مرکز پر حملہ میں ملوث گروہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایران نے آج جس لہجے میں بات کی ہے ہمیں بہت پہلے سے اس کی توقع تھی اورانہی صفحات پر ہم اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اس جانب توجہ دلائی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کون سا ایسا موقع ہے جب ایران نے پاکستان کی پشت میں چھرا گھونپنے کی کوشش نہیں کی۔

65کی جنگ ہو یا 71کی جنگ۔پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا پاک افغان جنگی معاملات، ایران ہمیشہ پاکستان کے مخالف کھڑا رہا ہے۔ اس حقیقت سے ہماری وزارت خارجہ بخوبی واقف ہے۔ایک اہم اور اعلی مرحوم سرکاری عہدیدار کے مطابق جنگ ستمبر65کے موقع پرامداد کے نام پر زائد المیعاد دوائیں اور پھٹے پرانے کمبل اور مضر صحت خشک خوراک فراہم کی ۔ ایران کے سرحدی محافظوں کا اغوا انتہائی افسوس ناک ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں مگر ایران کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے اور دوستی کے نام پر جس دشمنی کی بنیاد ایران رکھ رہا ہے،یہ کسی صورت ایران کے حق میں نہیں ہے ۔


حکومت کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر ایران سے پاکستانی دہشت گردوں کو پناہیں دینے،پاکستان میں فرقہ وارانہ لٹریچر بھیجنے،پاکستانی دہشت گردوں کو اسلحہ،فنڈ اور ٹریننگ دینے اور مسلسل پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرنے کے متعلق دوٹوک الفاظ میں بات کرے۔ایرانی سفیر کو بلا کر سرزنش کی جائے اور اس سے ان تمام امور کا جواب طلب کیا جائے کیونکہ ہم پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بننے والے ہزاروں شیعہ وسنی افراد کے قتل کا ذمہ دار ایران کو سمجھتے ہیں۔

ایرانی سفیر کے سامنے یہ بات واضح کی جائے کہ ہم کسی صورت بھی اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے اور اپنے ملک میں مذہب کے نام پر کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔“
اہل سنت والجماعت کے مطالبات اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو فی الفور قدم بھی اٹھانا چاہیے۔ایران کی مداخلت پر تو ایران سے بازپرس ضرور کی جائے مگر دیگر ہمسایہ یا غیرہمسایہ ممالک میں کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ پاکستان میں کسی قسم کی مداخلت کرسکیں۔

حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ذمہ دار پاکستان کے ہمسایہ ممالک ہی ہیں۔کوئی شیعہ سنی کے نام پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہا ہے تو حنفی ،اہل حدیث اور دیگر فروعی قسم کے عنوانات پر پاکستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور ان مفادات کے حصول کیلئے پاکستان کو ایک تجربہ گاہ کی حیثیت سے استعمال کیا جارہا ہے۔

پاکستان آج جن حالات سے گذررہا ہے یہ سب غیرملکی مداخلت کا نتیجہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے سفارت کاروں کو سفارتی اصول وضوابط بھی سکھانے اور انہیں پاکستان کے غیرسرکاری اداروں میں بلاروک ٹوک آنے جانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ایران کے سابق سفیر جناب ماشاء اللہ شاکری نے تو کالعدم شیعہ تنظیموں کا کوئی ادارہ شاید ہی چھوڑا ہو جہاں جاکر انہوں نے جلسوں اور جلوسوں سے خطاب نہ کیے ہوں جس سے کالعدم شیعہ تنظیموں کو ایرانی سرپرستی کا تاثر ملتا رہا اور وہ پاکستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث رہے۔

گذشتہ مہینے کراچی سے گرفتار ہونے والے ایک ایسے گروہ کو میڈیا کے سامنے بھی لایا جاچکا ہے۔اسی طرح کے ایک گروہ کی پنجاب میں موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں جنہیں ایران میں کسی جگہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور اسلحہ وفنڈ کے ساتھ پاکستان روانہ کیا جاتا ہے جو یہاں جید علماء کرام کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔غیر ملکی مداخلت بالخصوص ایران کی مذہب کے نام پر جاری مداخلت کو اگر نہ روکاگیا تو پاکستان میں شام،لبنان،بحرین اور دیگر خلیجی ممالک جیسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :