پہلے مذاکرات تو ہونے دیجئے

بدھ 19 فروری 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

طالبان سے مذاکرات کامیاب ہونگے یا نہیں؟اس سوال میں دانشوران ِقوم الجھی ڈور کی طرح تذبذب کا شکار ہیں ۔انہیں ایسی عجلت ہے کہ الامان والحفیظ،طرح طرح کے خدشات ،خودساختہ تحفظات ،بہانت بہانت کی بولیاں،من گھڑت تاویلیں ،نت نئے حیلے بہانے ”صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں“کے مصداق بنے یہ دانشور کھل کر قوم کو کیوں نہیں بتلاتے کہ وہ مذاکرات کے مخالف ہیں ،حیلوں بہانوں سے قوم کی رائے بگاڑنے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔

13برس بعد بڑی مشکل سے اب کہیں جا کر یہ امید بندھی ہے کہ مذاکرات کر لیے جائیں ۔ان کی نوعیت بھی اتمام حجت کی سی ہے،اتنی سی بات گوارا نہیں،آئے روز کے دھماکے گوارا ہیں،جانی نقصان کی کوئی پرواہ نہیں،چوہا کانفرنس کی طرح اب تک تو کسی میں ہمت ہی نہ تھی کہ بلی کے گلے میں کوئی گھنٹی باندھے،بڑی مشکلوں سے حکومت آمادہ ہوئی ،تب بھی بہت سوں کے پیٹ میں مروڑ ایسی اٹھی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

(جاری ہے)

یوں لگتا ہے کہ جیسے دنیا میں پہلی بار مذاکرات ہونے جارہے ہیں۔کہ قیامت برپا ہونے والی ہے ،ہر ایک کو تشویش ہے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا ،اب تک جو ہوا وہ کسی کو یاد نہیں ۔
کڑواسچ یہ ہے کہ ہم بم دھماکوں کے عادی ہو چلے ہیں ،طبعی موت ،مظلومانہ موت،اجتماعی موت ،بے دردی کی موت ،اچانک موت یہ خطرناک الفاظ اپنا سوگوار مفہوم کھو چکے ہیں۔ایک ناحق قتل پر جو کہرام بپا ہوا کرتا تھا ۔

یہ اب پرانے زمانے کا قصہ بن گیا ہے،موجودہ زمانے میں ظلم پر رونگٹے کھڑے ہو جانے والی کیفیت زندہ نہیں رہی ،کہیں چل بسی ہے،ایک طبعی موت ،ایک جنازہ پورے علاقے میں سوگ بپا کردیا کرتا تھا،شادی کی تمام تقریبات منسوخ ہوجایا کرتیں تھیں،خواتین سر ڈھانپ کر آیا کرتیں تھیں،اب بم دھماکوں کی خبریں یوں پڑھی جاتی ہیں جیسے کسی بارات کی منظر کشی ہو،نہ غم ،نہ لہجہ پر نم،نہ ظاہری خدوحال میں فرق ،نہ بول چال میں تفریق، ایک ہی انداز ،نہ خوشی غمی میں تمیز․․یہ ہے ہماری معاشرتی بے حسی کی منہ بولتی تصویر۔

پہلے ذرایع ابلاغ دو طرح کے تھے ریڈیو اور اخبارات ۔ریڈیو میں خبریں پڑھنے والا غمناک آواز میں جرائم اور حادثات کی خبریں سناتا تھا ،تو سناٹا طاری ہوجاتا تھا ،بی بی سی میں رضاعلی عابدی سوگوار آواز میں حادثات کی خبریں سنایا کرتے تھے ،اور اخبارات بھی حادثات کے مواقع پر لفظوں سے جائے وقوعہ اور معاملے کی ایسی منظر کشی کرتے تھے کہ پڑھنے والے کے آنسو بہہ جایا کرتے تھے ،اور آج صورت حال یہ ہے کہ خبریں پڑھنے والے خوشی والی مسکان کے ساتھ بڑی ڈھٹائی سے حادثات کی خبریں سناتے ہیں کہ ان کی اداکاری کو داد دینے کو جی کرتا ہے ۔

الیکڑانک میڈیا کی ان دیکھی مسابقت نے مقدس صحافت کو اداکاری بنا دیاہے۔اس منظر نامے نے مذاکرات کامفہوم ”مذاقرات“ بنا دیا ہے۔معاملے کی نزاکت اور حساسیت سے غافل لوگوں کو مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی کامیابی کی جلدی ہے ۔کہنے کو یہ سب دانشور دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہیں اور ہر بات دہشت گردی سے شروع کرتے ہیں مگر جوں ہی معاملہ دہشت گردی کے خاتمے کا آتا ہے تو ان کی سوئی اٹک جاتی ہے ،دہشت گردوں سے جنگ ،یہاں پہنچ کر عقل کے سب راستے ”بند“ ہوجاتے ہیں۔

مشرف نے جنگ خود شروع کی ،اور اس کی سزا بھگت بھی لی،ہم نے بھی ان سے جنگ کر کے دیکھ لی ،کیا جنگ سے دہشت گردوں کو ختم کیا جاسکا،جنگ کی مثال جسم کے کسی خراب حصے کے آپریشن کی سی ہوتی ہے ،آپریشن بار بار نہیں ہواکرتا ،صرف متاثرہ جگہ کا ہوتا ہے ۔جنگ کے حامی دانشور ایک عضو کی خرابی کی پاداش میں پورے جسم کو آگ لگانے کی تجویز دے کر داد بٹورنے کے متمنی ہیں ۔

ایسی تجویز پر داد کی بجائے انکے منہ میں خاک ۔فوج کا کام ہی جنگ ہے،جنگ اس کے پیشہ وارانہ فرائض میں شامل ہے ، فوج کبھی نہیں کہہ سکتی کہ وہ جنگ نہیں کرے گی ،لیکن اتنی بھی سمجھ نہیں کہ فوج اپنے شہریوں سے جنگ کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتی ،فوج کو ملک کے اندر حالت جنگ میں مصروف رکھنے سے اس کی پیشگی پیشہ وارانہ تیاریوں میں خلل آتا ہے۔ فوج جب بھی ملک میں حالت جنگ میں ہو یہ سیاست دانوں ،دانشوروں کی ناکامی کی کھلی دلیل ہوتی ہے ۔

یہ ناکامی کسی کو بھی نظر نہیں ا ٓتی ۔ جنگ کے حامی کہتے ہیں کہ فوج لڑے گی ،فوج کو لڑنے دیا جائے ،یہ لوگ فوج کے کاندھے پر بندوق رکھ کر خود ان سے لڑنا چاہتے ہیں ۔کیا فوج باہر سے منگوائی گئی ہے ۔فوجی بھی تو ہمارے بھائی رشتہ دار ہیں۔یہ لوگ کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ فوج لڑتی رہی اور کمزور ہوتی رہے تاکہ کل اقتدار پر قابض نہ ہوسکے۔ بار بار آپریشن کی ناکامی کا طعنہ فوج کو دیا جاتا رہے ،اور فوج کو سر نہ اٹھانے دیا جائے ۔

فوج کی تربیت دشمن ملک کے خلاف لڑنے کی ہوتی ہے ۔اپنے ملک کی براہ راست جنگ ہو تب بھی کوئی بات نہیں مگر یہاں تو صورتحال گوریلا جنگ جیسی ہے ۔اس کی وضاحت کے لیے ہمیں معروف تحقیقاتی رپورٹر جناب مبشر فاروق کی ایک نئی اصطلاح شہری گوریلا جنگ ادھار لینی پڑے گی ۔جب اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی شہری گوریلا جنگ کا خطرناک روپ دھار لے ۔تب سارا معاملہ فوج کے سپر د کرکے کہ وہ لڑے قوم اپنی ذمہ داریوں سے بری نہیں ہوسکتی ، فوجیں قوموں کے مورال پر لڑتی ہیں جہاں واضح طور پر قوم دو حصوں میں تقسیم ہو وہاں فوجی آپریشن فوج سے ناانصافی ہے ۔

جب وزیراعظم نے وضاحت کر بھی دی کہ حکومت اور فوج سب مذاکرات کے حامی ہیں ،اس کے باوجود بھی ہر دانشور کی تان فوج کی ناراضگی پر آکر ٹوٹتی ہے۔عام فوجیوں کی رائے پر تجزیے کرنے والے یہ جان لیں کہ فوج میں چیف آف آرمی اسٹاف کی رائے حتمی اور پورے ادارے کی رائے ہوتی ہے۔،آپریشن ،آپریشن کا نعرہ لگانے والے ہزاروں نقل مکانی کرنے والوں کی ایک روپے کی مدد نہیں کرسکے ،لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔

جب گھر ہی نہ رہے باقی بچتا کیا ہے ،جنگ کسی بھی شکل میں ہو وہ جب ختم ہونے پے آتی ہے تو بالآخرمذاکرات کی میز پر ختم ہوتی ہے ۔دانشور قوم کو کیوں نہیں بتلاتے کہ تیرہ برس میں پہلی بار پوری قومی یکجہتی کے ساتھ مذاکرات کی وہ میز اب بچھ پائی ہے ۔جو جنگ کے خاتمے پر منتہج ہوتی ہے ۔ دانشور لکھ پڑھ کر اپنا جی بھریں ۔اور مشورے نہ مانانے جانے کا رونا نہ روئیں ،وزیراعظم اکیلے 10ہزار دانشوروں کے مشوروں پر چلیں یااپنی دانش سے ملک کا نظام چلائیں ۔

10ہزار دانشور خود انصاف سے بتلائیں کہ اکیلے وزیراعظم کس کامشورہ مانیں اور کس کا نہ مانیں۔پھر بھی اس کی کیا ضمانت کہ آپ برا نہ مانیں،وزیراعظم کو عوام نے تبدیلی کے لیے مینڈیٹ دیا تھا ۔یہ جنگ 2001سے چل رہی ہے مزید جنگ میں دھکیلنا تبدیلی نہیں ۔تبدیلی جنگ سے باہر نکالنا ہے اور وزیراعظم جنگ سے پوری قوم کو باہر نکالنے کے لیے ہی مذاکرات کی میز لگائے بیٹھے ہیں۔

جن دانشوروں کی اپنے گھر میں ایک نہیں چلتی وہ دانشور مشوروں سے حکومت چلانے کی ٹھانے بیٹھے ہیں ۔انہیں جلدی ہے کہ نہ جانے طالبان سے مذاکرات کامیاب بھی ہونگے یا نہیں ۔دھیان رہے کہ ابھی مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے ۔پہلے ہی نجومی ستاروں کی چال تاڑ کر پیش گوئیاں کررہے ہیں ۔کہ کامیاب نہیں ہونگے ۔آپ اطمینان رکھیں جب کامیاب نہیں ہونگے تو دنیا دیکھے گی ۔

ابھی آپ ذرا ہونے تو دیں۔اصل معاملہ یہ ہے کہ اب سیانے لوگ مذاکرات کی کھل کر مخالفت کر نہیں سکتے ۔لے دے کے اس کی قبل از وقت کامیابی کے تجزیوں پر ہی ساری بھڑاس نکالنے پر ساری تونائیاں خرچ کیے جارہے ہیں ۔اتنی عجلت درست نہیں ،یہ روش قومی معاملات سے روا نہیں۔یہ ناز ک وقت ذاتیات کوبالائے طاق رکھنے کا ہے ۔پوری قوم امن چاہتی ہے ۔امن کیسے لایا جائے اس کے طریق کار میں فرق ہوسکتا ہے ۔

مشرف اور پی پی حکومت جس راستے پر چلے 13برس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ راستہ امن نہ لا پایا ۔اب لے دے کرایک امید بچی ہے ۔وزیراعظم کو ایک موقع دیجئے ․․․․․پہلے مذاکرات تو ہونے دیجئے۔ ابھی تو ابتداء ہوئی ہے ،پہلے مذاکرات کا ڈھنڈورا تھا ابھی تو شروعات ہو ئی ہے قبل از وقت ناکام نہ کریں ۔حوصلہ سے کام لیں ،تنی ہوئی بندوقیں واپس اتروانا آسان نہیں ہوتا ،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :