بہتر تھا کہ مچھلی کا شکار سیکھا دیا ہوتا

جمعہ 14 فروری 2014

Azmat Ali Rehmani

عظمت علی رحمانی

موجودہ حکومت نے آتے ہی بہت اچھے کام بھی کیے ،جن کو گنوانا وقت کا زیاں ہے او ر ویسے بھی اچھا ہی کرنے کی خاطر بھی ووٹ جیسی ”گواہی “ملک کی عوام نے ان کے نام دیا ہوتا ہے ،اسی طرح ایک اہم کام نوجوانوں کی خاطر بھی سرانجام دیا جارہا ہے اور اس کے لیے میاں صاحب کی نظر انتخاب اپنی بیٹی اور ان کی نئی نویلی سیاسی بساط پر جاٹکی ،قطع نظر کہ وہ اس کام کے لائق تھیں یا نہیں۔

گزشتہ سال دسمبر 2013میں وزیراعظم نوازشریف یعنی ”گورنمنٹ آف پاکستان“ کی طرف سے نوجوانوں کوباروزگار بنانے کے لیے ایک سوارب روپے کی خطیررقم سے قرض دے کرمقروض و خود کفیل بنانے کا اعلانِ وسعید وعید سنایا گیا تھا۔یہ اعلان ملک کی معاشی ابتر صورتحال میں یقینا کسی خوشی سے کم بھی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

نوجوان نسل کو قوم کا حقیقی معماراور اپنے حق سے روشناس بنانے کیلئے چھ مختلف ”اسکیموں“ کا یہ اعلان خود نوجوان نسل کو اپنی اہمیت سمجھنے کے لیے کافی و شافی تھا۔

خصوصاًعالمی سطح پر ”نوجوان “کی لگائی جانے والی باز گشت کے تناظر میں بھی اس کو سمجھنا آسان ہے ۔ مزکورہ اسکیموں میں سے ایک ا سکیم نوجوانوں کو آسان اقساط پر قرضے دینے کی ہے ۔جس کا باقاعدہ آغاز9دسمبرسے کردیا گیا تھا جس کے اعلان پر بھی باقاعدہ ایک ”نوجوان “کی خدمات حاصل کی گئیں۔اس اسکیم کے تحت 21سال سے 45سال تک کی عمر کے افراد کو کاروبار کے لیے ایک لاکھ سے بیس لاکھ تک قرضے دیے جارہے ہیں۔

یہ اسکیم اپنے اندرجناب ِ وزیر اعظم سے زیادہ وسعت نظری و عقلی و عملی رکھتی ہے جس کا اندازہ ج نوجوانوں کو عمر 29سال سے 45کر کے انہیں قرض کی خوشخبری سنائی گئی ۔یہ قرضے سات سال کی مدت میں قسطوں کی شکل میں واپس کیے جائیں گے۔قرضوں کی واپسی ایک سال بعد شروع ہوگی ۔ اسکیم کا دائرہ کار آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک وسیع ہے۔
یہ اسکیم جہاں ملک کے اصل” سرمایے“ کے بہترمستقبل کے لیے ایک امید کی کرن ہے وہیں اس” سرمایے “کی ابدی حیات کے لیے ایک زہر قاتل بھی ہے۔

یہ حقیقت سے کسی منافق کوبھی انکار کی جرت نہیں ہے کہ نوجوان قوم کا اصل سرمایہ ہیں جن کی صلاحیتوں سے مستفید ہوکر ملک کی موجودہ ابترصورتحال سے نمٹا جاسکتاہے جب کہ کبھی ایسا ہو گا نہیں کیوں کہ ہم نے ان کو غلام بنا کر ایسی کوئی بھی صلاحیت صلب کرنے کی قسم کھا رکھی ہے دورسری طرف یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو کند کرکے وقتی مفادات اٹھانا اور ابدی اور حقیقی مفادات کو پس پشت ڈالنا نوجوانوں کے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف بلکہ دنیاو آخرت دونوں میں رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
بنظر غائر بھی دیکھا جائے تو یہ قرضے لاکھوں”تعلیم یافتہ“ بیروزگاروں کو ”روزگار“ کے لیے دیے جارہے ہیں۔

حقیقت اس کے برعکس ہے ،میاں صاحب کے گزشتہ دور میں بھی اس وقت کے مفتی اعظم پاکستان اور سابق چیف جسٹس شرعیہ کورٹ مفتی تقی عثمانی نے ایک اہم بات اسی متعلق ان کے گوش گزار کی تھی مگر سوئے قسمت اک بار پھر میاں جی اسی ڈگر پر روزانہ ہو چکے ہیں،بات اصل یہی ہے کہ قومیں وہی کامیاب رہتی ہیں جو گزرے ہوئے کل سے اپنے آج کو بہتر بنائیں۔ اب اک بار پھر ان قرضوں کے ذریعے لاکھوں نوجوانوں کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ’اعلان جنگ “پر ُاکسایا جارہاہے۔

کیوں کہ حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے ان قرضوں پر پندرہ فیصد (mark up ( یا سروس چارجز عائد کیا گیاہے ۔چلیں یہ بھی مان لیا کہ ”مارک اپ “کم کیا جارہا ہے ۔مگرپھر بھی ”سود“ کو مارک اپ اور سروس چارجز کاپہناوا پہنا کرنہ صرف قوم کی دنیاوی واخروی زندگیوں کے ساتھ مذاق کیا جارہاہے بلکہ ملک کی اخلاقی ،معاشرتی اور معاشی صورتحال کو بھی بدتر بنایا جارہاہے۔

کیا خوب ہوتا کہ مچھلی کا شکار سیکھا دیا ہوتامگر ناخدا بھی اسے ہی راز دیتا ہے جو ہمیشہ اس کا محتاج رہے ۔حکومتی سرپرستی میں سودی قرضوں کے ذریعے اجتماعی طور پر پوری قوم کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان ِجنگ پر اکساکر عذاب الٰہی کو دعوت دی جارہی ہے۔
مارک اپ اور سروس چارجزدونوں سود کے ”خوشنما “اور جدید نام و استعارے ہیں ۔

سود (interest (”اُس زائد رقم کو کہاجاتاہے جوکسی قرض پر طے کرکے وصول کی جائے“ ۔جیسے اس اسکیم میں طے کرکے پندرہ فیصد وصول کی جارہی ہے ۔سود کے بارے میں شریعت کا فیصلہ ”حرام “ہونے کا ہے ۔یعنی سود لینا ،دینا،کھانا سب حرام ہے ۔اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں سودکو سب سے بڑا گناہ قراردیااور سود کھانے والوں کے لیے سخت قسم کی سزا بیان فرما کر اس سے بچنے کا حکم فرمایا۔

اللہ کا ارشاد ہے کہ ”جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں)اُس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنادیاہو“۔مزید فرمایا ”اے ایمان والواللہ سے ڈرو!اگر تم واقعی مومن ہوتو سود کاجو حصہ بھی( کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو،پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو“ ۔سود کے خلاف اللہ کا اعلان ِجنگ فرمانا اس کے گناہ ِعظیم ہونے کی دلیل نہیں تو اورکیا ہے۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سی احادیث میں سود کی حرمت کو بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ ”میں نے شب معراج کے موقع پر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے پیٹ بہت بڑے تھے ،ان میں سانپ بھر ے ہوئے تھے جو باہر سے صاف نظر آتے تھے ۔میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ،انہوں نے جواب دیا یہ سود کھانے والے ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں آپ نے سود لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ چارآدمی ایسے ہیں جن کے با رے میں اللہ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل کرے ،نہ انہیں جنت کی نعمتیں چکھنے دے ،ان میں سے ایک سود خور بھی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا” جب کسی قوم میں سود کا لین دین کا رواج ہوجائے تو اللہ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کردیتے ہیں“۔

اس لیے کسی قوم میں سود کا رواج پاجانانہایت خطرناک ہے ۔کیوں کہ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ سرمایہ دارفروغ پائے اور غرباء کی جماعت بڑھے اور اس کی خود داری مفقود ہوکر اخلاق ِرذیلہ پیدا ہوں۔جب قوم میں اس قسم کے آدمیوں کی کثرت ہوجاتی ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ سود خورسرمایہ دار قوم بحثیت مجموعی کمزور ہوکربالآخرکسی بلند اخلاق قوم سے مغلوب ہوگی ۔

قومیں اخلاق کی بلندی اور پستی سے ہی فاتح ومفتوح ہوا کرتی ہیں۔سود قوم کو گھن کی طرح کھاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارقوم کا دوسری قوموں کے ہاتھوں ذلیل ہونا مقدر ہوتا ہے۔آج ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں سے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو اسی سود کے رواج کے ذریعے پیدا ہوئے ۔آپ بیرورزگاری اور اخلاقی پستی کو لے لیں ۔ملک میں بیروزگاری پھیلنے کی بنیادی وجہ سودخوری اور سودی معاملات ہیں۔

وزیراعظم کے یہ اسکیم اگر چہ نیک نیتی سے شروع کی گئی لیکن سود کی آمیزش کی وجہ سے اس کے دورس اثرات نکلنا بہت مشکل ہے ۔کیوں کہ ظاہر ہے جس عمارت کی بنیاد گھٹیا میڑیل سے رکھی جائے وہ زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی ،اسی طرح جس روزگارکی بنیاد حرام پر ہو اس کے بارے میں اچھے نتائج کی توقع رکھنا خام خیالی ہے ۔ اگرچہ وزیراعظم نے اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے شرائط میں نرمی بھی کی ہے ،لیکن یہ نرمی اس وقت نرمی سمجھی جائے گی جب مکمل طور پر اس اسکیم سے ”مارک اپ “کو ختم کردیاجائے۔


بہرحال اس قدردینی دنیاوی ،اخلاقی ،سماجی ،قومی اور معاشرتی برائیوں سے لبریز اسکیم سے مستفید ہونا کسی طور پر بھی مفید نہیں ۔ سودکے نام پر قرضے ہوں یا روزگار کے نام پر سود ،دونوں کا استعمال اسلام میں ممنوع ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اسلام ایک سچا اور حق مذہب ہے ۔اس کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔اس مذہب میں حق بات کہنا ہر کسی پر لازم ہے ۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”کہ میری بات دوسروں تک پہنچاؤ چاہے وہ ایک ہی آیت ہو“کی وجہ سے ہم پرلازم ہے کہ ہم قوم کو سود جیسے عظیم گناہ کی دلدل میں لت پت ہونے سے بچائیں۔سودی قرضوں کے ذریعہ قوم کے سرمایہ کوگھن لگنے اور کند ہونے سے محفوظ رکھیں۔یہ ہمارا دینی ،اخلاقی اور قومی فریضہ ہے کہ ہم قوم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ سے باز رکھیں۔اسی میں ملک وقوم کی فلاح ہے اور اسی میں ہماری بقاہ وسلامتی کا راز مضمر ہے ۔جب ہم سے ہر نوجوان کسی کا مقروض نہیں ہو گا وہ تب ہی سر اٹھا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ …
بس یہی پہچان تھی میری ہر پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :