اردو زبان …"مرحومہ زبان "

بدھ 12 فروری 2014

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

آج کا کالم اردو زبان کے حوالے سے ہے۔کہ اس زبان کا مقام کیا تھا۔آج کس حالت میں ہے۔اور مستقبل میں کیا پوزیشن ہوگی۔اپنے قارئین سے بھی اس بحث میں انہی صفحات میں اپنااظہار خیال بیان کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یہ ایک فکری موضوع ہے۔اور فکری موضوعات زندہ قوموں کیلئے ہی ہوتے ہیں۔
دوسروں سے ان کا حق مانگنا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا اپنے حق کیلئے دوسروں سے مطالبہ کرنا مشکل ہے۔

نفس ہتھیلی پہ رکھ کر سوداگری کی جائے تو معاملہ الگ ہے۔آج ہم اردو کے حوالے سے ایک بار پھر بحث چھیڑتے ہوئے اپنا قانونی حق پورا ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔جس کیلئے بظاہر مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات پاکستان کوشاں ہیں۔اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ تحریک پاکستان کی جودیگر وجوہات تھیں۔

(جاری ہے)

ان میں ایک وجہ اردو زبان بھی تھی۔آج بھی اہندؤں اور مسلمانوں میں ایک بنیادی اختلاف زبان کے حوالے سے موجود ہے۔

دوقومی نظریہ کی آبیاری جہاں مذہب کے معاملے پر قائم ہوئی وہا ں زبان کو بھی اس میں دخل حاصل ہے۔گاندھی نے ایک مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستاں میں اکثریتی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے تو اس مطالبے میں چھپی تعصب کی بو مسلمانوں نے سونگھ لی اور محمد علی جناح اور ان کے رفقاء سمجھ گئے کہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد مسلمانوں کے مفادات کو بری طرح نقصان پہنچے گا۔

اور مسلمان اقلیت ہندو اکثریت میں گم ہوجائے گی۔اور ایک دن آئے گاکہ ان کا اجتماعی وجود برصغیرسے ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا،۔ان کی زبان ،ان کا مذہب،ان کی تہذیب اور ان کے علوم و فنوں سب ایک ایک کر کے تباہ ہوجائیں گے۔یہی وہ خطرہ تھا جس کے پیش نظر مسلمانوں نے ایک قومی نظرئیے اور مخلوط انتخاب کی مخالفت کی۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کردیا کہ مسلمانوں کو ہندؤوں سے الگ ایک قوم تصور کیا جائے اور مسلم آبادی پر مشتمل صوبوں کو پاکستان کے نام سے آزاد حیثیت دی جائے۔


حالات بدلتے رہے،مسلمان الگ وطن کے حصول میں کامیاب ہوگئے ۔لیکن سفید بھیڑئیے کے بعد کالے بھیڑیئے نے اپنے پنجے اتنے مضبوطی سے گاڑ لیئے کہ الگ وطن کے حصول میں جو بنیادی چیز تھی ۔یعنی اردوزبان تو اسے گردآلود کر کے آہستہ آہستہ ملک بدر کر دیا جانے لگا۔اور آج اردواس ملک میں قابل ترس مقام پر کھڑی ہیں۔حالانکہ بانی ء پاکستان کے اپنے فرمودات اس پر شاید ہیں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔

لیکن اشرافیہ نے آج تک اردوکی ترویج کا سوچاہی نہیں ۔اپنی زبان میں بات کرنی جن کو دشوار لگتی ہو ان سے توقعات کیسے رکھی جا سکتی ہیں۔؟
اس بات کے تسلیم کئیے جانے میں کوئی مشکل نہیں کہ پنجابی،سندھی،بلوچی ،پشتو،سرایئکی اور کشمیری بھی ہمارے ملک میں بولی جاتی ہیں ۔اور ان کو سمجھنے والے بھی کثیر تعداد میں ہیں ۔لیکن اردو کو جو مرکزیت حاصل ہے ۔

اور پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔وہ دوسری کسی زبان کو نہیں۔اظہار خیال کے جو عمدہ پیرائے اردو میں مرتب کئیے جا سکتے ہیں ۔باقی کوئی زبان اس کے عشر عشیر بھی نہیں۔قومی زبان کو جن خصوصیات کا حامل ہونا چاہئیے وہ بدرجہ اتم اردو میں موجود ہیں۔پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل دونوں کے حل میں اردو مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی باقی زبانیں اپنے علاقے سے باہر اجنبی محسوس کی جاتی ہیں ۔

جب کہ اردو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔بقول مولوی عبدالحق مقامی بولی صرف ایک مقام کی ہے۔قومی زبان ساری قوم کی ہے۔قومی زبان پورے قومی خصائص اور اس کی روایات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔مقامی بولی صرف ایک فرد کی نمائندگی کرتی ہے اور بس۔قومی زبان قوم کے شیرازے کو مضبوط کرتی ہے اور اسے منتشر ہونے سے بچاتی ہے۔اور قومیت کے ولولے کو زندہ و تازہ کرتی ہے۔


لہذاضرورت قومی زبان کو زندہ رکھنے کی ہے۔جس کی سمت سے ہم دور ہوتے جا رہے ہیں۔مذہبی نقطہ نظر سے بھی پاکستانی تعلیمی اداروں بالخصوص مدارس میں اردو کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔مذہب پاکستانی قومیت کا ایک ایسا جزو ہے۔جسے ذرا دیر کیلئے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کے مختلف حصوں میں جو بھائی چارہ اور رواداری نظر آتی ہے ۔اس میں مذہب کا بہت بڑا حصہ ہے۔

اور برصغیر میں اسلام کی اشاعت اردو ہی کی وجہ سے ہوئی۔ان وجوہات کی بناء پرضرورت اس امر کی ہے کہ اردو کی صرف قومی زبان تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اس کو قومی زبان کی حیثیت بھی دی جائے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں اگرچہ اردو تدریسی نصاب کا حصہ ہے۔اس سے آگے اس کوتمام مضامین کی زبان کا درجہ دیا جائے۔سائنس کے مضامین اردو میں منتقل کر کے نئی نسل کو اپنی قومی زبان میں اعلیٰ تعلیم مہیا کی جائے۔


ہر اچھے برے کام میں مغرب کی نقالی تو ہم کرتے ہیں ۔لیکن اس اہم اور بنیادی کام میں ہم کیوں تغافل برت رہے ہیں؟۔کواچلاہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کہ مصداق ہم انگریزی زبان کو سر پر بٹھا کر قومی جرم کے مرتکب تو ہوہی رہے ہیں۔ساتھ ساتھ معاشرے کے نوے فیصد طبقے کو احساس محرومی کا بھی شکار کررہے ہیں۔اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اسمبلی کے فلور پر اپنے اندر جرات پیدا کر کے اردو زبان کو "مرحومہ زبان"قرار دے دیں ۔

تا کہ نہ رہے بانس ،نہ بجے بانسری
ہمیں کون سمجھائے گا؟۔مغرب زدہ دانش ور؟؟؟؟۔۔۔۔جو ڈالروں کی دانش فروخت کر رہے ہیں۔جن کا کام مغرب کے مفادات کی چوکیداری ہے۔ان سے توقعات ختم کر کے ہر محب وطن شہری اپنا کردار ادا کرے۔کیا بعید کوئی معجزہ رقم ہوجائے اور ہم اپنی قومی زبان کو اس کا جائز حق دلادیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :