پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا

بدھ 12 فروری 2014

Shahzada Raza

شہزادہ رضا

فروری 1987 میں انڈین پرائم منسٹر راجیو گاندھی نے " براس ٹیک " نامی فوجی مشقوں کی آڑ میں 4 لاکھ فوج راجھستان کے بارڈ ر پر پاکستان پر حملہ کرنے کی نیت سے ڈپلائے کردی۔ مگر سرحد کے اس پار کچھ " جاگتی آنکھوں" نے انڈین آرمی کی اس نقل وحرکت اور ناپاک ارادوں کی اطلاع بروقت جنر ل ضیاء الحق کو دے دی ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم اس وقت چنائے میں انڈیا کے خلاف میچ کھیل رہی تھی ۔

ضیا الحق بغیر کسی سرکاری اطلاع یا پرٹو کول کے میچ دیکھنے کے بہانے انڈیا جا پہنچے ۔ راجیو گاندھی صدر پاکستان کو ائر پورٹ پر ریسیوکرنے بھی نہ آیا ۔ اپنے سپیشل ایڈ وائزر مسٹر بہرام نام کو جنرل ضیا ء کے استقبال اور میچ دکھانے کی ڈیوٹی لگاکے بھیج دیا ۔ واپسی پر راجیوکی کیبنٹ کے ممبران نے راجیو کو مشور ہ دیا کہ ضیاء کو لوادع کہنے نہ جانا ،عالمی سفارتی آداب کے خلاف ہوگا۔

(جاری ہے)

راجیو گاندھی طو عاً و کر ہاً ضیاء سے الوداعی ملاقات کرنے دہلی ائر پورٹ پہنچ گیا۔
"راجیو گاندھی نے جنر ل ضیا ء سے نظر یں ملائے بغیر انتہائی سرد مہری سے ملاقات کی۔ ضیا ء الحق سب لوگوں سے فرداً فرداً مصافحہ کر رہا تھا۔ بھر پور روایتی مسکراہٹ جنر ل کے چہرے سے لپٹی ہوئی تھی ۔راجیو گاندھی نے ہاتھ ملایا تو ضیا ء کی مسکراہٹ اچانک ختم ہوگئی اور وہ راجیو کا ہاتھ پکڑ کر بولا مسٹر گاندھی ! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہں ۔

Go Ahead ، لیکن یاد رکھنا دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی ،صرف ضیاء الحق اور راجیو گا ندھی کو یاد رکھے گا۔ کیونکہ پھر یہ جنگ روایتی جنگ نہیں ہوگی ، بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی ، ہو سکتا ہے کہ نتیجہً پاکستان ختم ہوجائے۔ لیکن دینا یہ مسلمان باقی رہیں گے ، مگر یاد رکھنا انڈ یا کے مٹ جانے سے دنیا سے ہندو مذہب کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

اگر میرے پاکستان پہنچنے تک تم نے فوجیں واپس بلانے کا حکم نہ دیا تو پاکستان کی سرزمین پر پہنچنے کے بعد میرے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ ہوگا۔ ۔۔۔" فائر!"
جنرل ضیاء کی آنکھوں میں موت کی سی بے رحمی تھی ، اس کا لہجہ تبارہا تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے کر گزرے گا، میری ریڑھ کی ہڈ ی سرد ہوگئی میں راجیو گاندھی کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں دیکھ سکتا تھا۔

دوسرے ہی لمحے ضیاء کے چہرے پر پھر وہی مسکراہٹ لوٹ آئی وہ اپنے مخصو ص سٹائل میں باقی لوگوں سے مصافحہ کرے جہاز کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا ۔ راجیو نے فوجیں واپس بلالیں ، راجیو جانتا تھا کہ پاکستانی آرمی چیف کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ "فائر" کا کیا مطلب ہوتا ہے"
(بہرام نام۔ سپیشل ایڈ وائزر تو پرائم منسٹر (کالم انڈیا ٹوڈے )
ایک خوفناک جنگ ٹل گئی ، جاگتی آنکھوں کا یہ احسان قوم کبھی نہ بھولے گی!!
اس سے پہلے بھی ایک بار
پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ ہوچکا تھا ۔

۔۔!!
جب 25 دسمبر 1979 کو روس نے اپنا 40th بر یگیڈ افغانستان میں اتار دیا ۔ روس کو افغانستان کے بنجر پہاڑوں سے کچھ حاصل نہ ہوناتھا ، ٹارگٹ پاکستان کے ساحل اور بلا آخر مشرق وسطحیٰ کے تیل کے ذخائر تھے ۔ روسی یلغار کے بعد " جاگتی آنکھوں " کی پہلی میٹنگ مری روڈ راولپنڈی کی ایک خوبصورت عمارت میں تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے قریب ترین دوست جنرل اختر عبدالرحمن سے ا ستفسار کیا ۔

اختر تم کیا کہتے ہو ، روس کو روک سکتے ہو؟
سخت گیر بو ڑھے ہینڈسم جرنیل نے لمحہ بھر سوچا اور بولا " صرف روک نہیں سکتے ۔اسے افغانستان سے بھگا بھی سکتے ہیں۔ " اختر اس کا انعام بھی تم اللہ سے ہی پاؤ گے "
پھر " جاگتی آنکھوں " نے افغانستان میں Operation Cyclone کا آغاز کر دیا ۔جس کے نتیجے میں ایک ظالم سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔

یہ جاگتی آنکھوں کاہم ہر ایک اور احسان تھا۔
یہ "جاگتی آنکھیں " ہمارے وہ بیٹے اور بیٹیاں ہیں ، جنہیں دنیا آئی ایس آئی (Inter Services Intelligence) کے نام سے جانتی ہے۔
افسوس! کے دنیا تو جانتی ہے مگر اس کی اہمیت اور کارناموں سے ہماری نوجوان نسل نا آشنا ہے ۔
خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملکی دفاع میں کان اور آنکھوں کا کام کرتی ہیں ۔ ہماری افواج ان کی دی ہوئی اطلاعات اور جنگی پلاننگ میں ان کے مشورے کی محتاج ہوئی ہیں۔


امریکی (CIA) انڈین (RAW)اسرائیلی (MOSAD) اور وس کی KGB ان ممالک کے دفاع میں اسی فیصد سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں ۔ ہماری یہ سیکر ٹ سروس (ISI) 1948ء میں وجود میں آئی ۔اس کا بنیادی کام جاسوسی (Espionage) کرنا تھا ۔ آئی ایس آئی اپنے قیام سے ہی پاکستانیوں کی آنکھ کا تار ا اور دشمن کی آنکھ کا کانٹا تھی ۔
یوں تو اس خفیہ ایجنسی کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے مگر اس کی عالمی وجہ شہرت افغان مجاہدین کی سرپرستی اور روس کا تیا پانچہ ہے ۔

ایک طرف روس کے 3فورسٹار جنرل 11 ، 2 سٹار اور لاتعداد بر یگیڈ ر ، بے پناہ عسکری قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور دوسری جانب ایک تھر ی سٹار پاکستانی جنرل جس کا تعلق آرٹیلری یعنی توپ خانہ سے تھا۔ انٹیلی جینس کا تجربہ زیرو۔
اور چند جانثار ساتھی
کوئی جوڑ ۔۔۔۔کوئی مقابلہ نہ تھا۔
خیر مقابلہ تو بدر کے میدان میں بھی نہ تھا ۔
مجاہدین پہ آئی ایس آئی کا کوئی دائر یکٹ کنڑ ول بھی نہیں تھا۔


جنرل اختر کے قریبی ساتھی اور آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک کے انچارج رہنے والے بر یگیڈ ئیر یوسف کے بقول " اگر روسیوں کو ہماری اس کمزوری کا علم ہو جاتا تو افغان جہاد کے نتائج کچھ اور ہوتے"
" جاگتی آنکھوں " والے یہ سپوت افغانستان کے اندر جا کر بھی مجاہدین کے ساتھ مصروف عمل رہتے ۔
آئی ایس کا ایک اور احسان ستر کی دہائی میں بلوچستان میں مسلح بغاوت کا سر کچلنا تھا (یادش بخیر اپنے جنگ گروپ کے نجم سیٹھی صاحب بھی علیحدگی کی اس تحریک میں پاک فوج کے خلاف مسلح جدوجہد میں بنفس نفیس شریک رہے)۔


RAW کے سینکڑوں ایجنٹ عرصہ دراز سے پاکستان کے اندر بم دھماکے کرکے معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث رہے۔
تحریک طالبان پاکستان بھی RAW کا لے پالک بچہ ہے ۔ یادر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوا فغانی طالبان نے کبھی OWN نہیں کیا بلکہ الٹا ان کی سرکوبی میں آئی ایس آئی کی مدد کی ہے۔
آئی ایس آئی نے RAW کے سینکڑوں ایجنٹوں کو ٹریس کرکے گرفتار کیا ۔

حالیہ مثال بھارتی فوجی سر بجیت سنگھ کی ہے جسے ٹریس کر کے عدلیہ کے حوالے کیا اور پھانسی کر سزاد لوائی
خود پاکستان آرمی کے اندر سے کالی بھیڑوں اور غداران وطن کو کاروائی کرکے پاک فوج کو بدنامی اور نقصان سے بچایا۔
" جاگتی آنکھوں" والے کتنے ہی سپوت فرض کی ادائیگی کے دوران خاموشی سے اپنے رب سے جاملے نہ تو ان شہیدوں کو کسی چینل نے کو ریج دی نہ ہی اخباروں میں کوئی خبر لگی ۔


خیر انہیں کوریج کی ضرورت ہوتی بھی نہیں ۔۔کیو نکہ انھیں بہر حال گمنام ہی رہنا ہوتا ہے یہی ان کے پیشے کی معراج ہے ۔۔۔۔یہی ان روشن راہوں کے تقاضے ہیں۔
کچھ سپوت سرحد کے اس پار دشمن کی جیلوں میں اپنے رب کی رضا کے سامنے سر جھکائے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ انسانیت سوز ٹارچر، روز ان کا مقدر ہے مگر ڈبل ایجنٹ بننے سے انکاری یہ آہنی اعصاب کے مالک وطن سے وفا نبھار ہے ہیں ۔


یہ دشمن کا قرض چکانے میں بالکل دیر نہیں لگاتے۔
ایک واقعہ ابھی تک یادوں کی قرطاس پہ سجا ہوا ہے۔ دہلی میں موجود ہمارے سفارت خانے کے ایک ملازم کو RAWکے ایجنٹوں نے اغوا کر کے برح طرح زدو کوب کیا۔۔۔ اگلے ہی دن ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی نے ایک نوجوان کیپٹن کو اپنے دفتر میں بلایا۔۔۔کیپٹن کے سلیوٹ کے جواب میں اس واقعے کی رپورٹ جنرل نے کیپٹن کی طرف بڑھا دی ۔

۔۔
" بیٹا ! ہتھ ہولا رکھنا ۔۔!"
"یس سر" کیپٹن جانتا تھا کہ اس کا شیر دل جرنیل اس سے کیا چاہتا ہے ۔ اگلے ہی دن بھارتی سفارت خانے کا ایک ملازم آئی ایس آئی کے اس کیپٹن کا " مہمان " تھا ۔۔۔چار گھنٹے تک مار مارکربھر کس نکال دیا ۔۔۔ اس فز یو تھراپی کے بعد اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھلایا ، نیا سوٹ خرید کر دیا اور وہیں ڈراپ کر دیا جہاں سے اٹھا یا تھا ۔

۔۔اس دن کے بعد آج تک کسی بھارتی ایجنسی نے پاکستانی سفارتی عملے کو تنگ نہیں کیا ۔۔ آئی ایس آئی نے پیغام دے دیا تھا۔
یہ امن کی آشا کا پیغام نہیں تھا ۔۔ یہ جنگ کی بھاشا کی چتاونی تھی۔
آئی ایس آئی RAW کے اعصاب پر سوار تھی ۔ ۔۔۔اور آج CIA اور MOSAD بھی اے دشمن نمبر1 گروانتے ہیں ۔ ہماری اس سیکرٹ سروس کے 3 شعبے ہوتے ہیں
1۔ خارجی 2۔ داخلی 3۔

عمومی
آئی ایس آئی ذمہ مندرجہ ذیل کام ہوتے ہیں۔
1۔ Espionage (اندرون و بیرون ملک جاسو سی )
2۔ Psychological Warfare (نفسیاتی حربی چالیں)
3۔ Sabotage (تباہ کاری )
ہماری اس خفیہ ایجنسی کی دنیا بظاہر ایک افسانوی دنیا ہے مگریہ حقیقی جیمز بانڈ فلموں اور کہانیوں میں پانے جانے والے کرداروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں انہیں خود کو چھپا کر رکھناہوتا ہے۔

۔ خاموشی سے اپنا مشن پورا کرنا ہوتا ہے۔ گولی چلانا ان کے لیے آخری Option ہوتا ہے۔۔سرحد پار جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے والے اکثر خالی ہاتھ ہوتے ہیں اپنے دفاع کے لیے صرف اللہ اور اپنے دماغ پر بھروسہ ۔۔۔ اللہ ان بانکے سجیلوں کی حفاظت کرے، (آمین )
آئی آیس آئی کے لیجنڈ میجر عامر کس کو یاد نہیں؟
4 سال تک روسیوں کو بے وقوف بنا تے رہے ۔

روسی انہیں اپنا زرخر ید غلام سمجھتے رہے۔ اور وہ وفا کا پتلا اپنی جان ، ہتھیلی پہ رکھے روسیوں کی ہر چال کی خبرآئی ایس آئی کو دہتا رہا ۔ کس کس کا ذکر کروں ۔۔ اس ادارے کا ہر رکن میجر عامر ہے۔۔وفا کی دیوی ان سب کے گھروں کی لونڈی ہے۔
اس ایجنسی کا ایک اور احسان ہمارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت ہے۔
امریکی اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کو باوجود ہمارے ایٹمی اثاثوں کا سراغ لگانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے ۔


راز داری کا یہ عالم ہے کہ صدر ، وزیراعظم اور آرمی چیف بھی ان اثاثوں کے بارے 100فیصد نہیں جانتے ۔
سیکورٹی اتنی سخت کہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم ہے ۔ حتی کہ اگر ہماری اپنی ائر فورس کا کوئی جہاز بھی گھومتا گھامتا ادھر آئے تو اسے بھی Shoot Down کرنے کا حکم موجود ہے۔
آئی ایس آئی کے سیا سی کردار پر بھی انگلیاں اٹھی رہی ہیں ۔

۔مگر اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سیاسی ڈیسک کس کے حکم پر وجودمیں آیا (یاد رہے کہ آئی ایس آئی کا چیف ایگزیکٹو وزیرا عظم پاکستان ہوتا ہے)
اس کا ہر سپوت میجر عامر ہے۔۔۔ جنرل شجاع پاشا ہے ۔ جی ہاں وہی جنرل پاشا جس نے وا شنگٹن میں CIA کی چیف لیون پینا ٹا سے تلخی کلامی کی اور ملکی غیرت پر سمجھوتا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا باس امریکہ نہیں۔

۔۔۔۔میر ا باس اللہ ہے۔
(یہ تاریخی فقرہ امریکی اخبار نے لیک کیا )
مگر ہمارا کردار بطور قوم کیا ہے؟ کبھی ان مجاہدوں پر بندے غائب کرنے کا الزام کبھی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر یہی ادارہ مئورد الزام !
نہ تحقیق کی ضرورت ۔۔۔۔نہ ثبوت درکار
محض بیرونی آقاؤں سے ڈالر بٹورنے کی خاطر ! اللہ کی لعنت ایسے دانشوروں اور صحافیوں پر ۔
اللہ کی عظمت کی قسم ! ہماری میٹھی نیندوں کا ہر لمحہ ان جاگتی آنکھوں کا مقروض ہے۔ اللہ نے ان جاگتی آنکھوں کو ہی ہمارا نگہبان بنایا ہے۔
کیونکہ ایک بار نہیں۔۔۔۔۔۔۔بارہا
پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :