حوصلہ شکنی

بدھ 12 فروری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

زندگی کا عظیم ترین کام اور مشکل ترین کام حوصلہ شکنی کے خلاف لڑنا ہے۔حوصلہ شکنی ہی وہ مہلک مرض ہے جو ہر آرزو کو مردہ کر دیتی ہے۔ ہر حوصلے کو پست کر دیتی ہے۔ قوتِ عمل کو ختم کر دیتی ہے۔ناکامی ایک ایسا عمل ہے جس سے بڑھ کر تھکا دینے والا عمل شاید ہی دنیا میں موجودہو۔ناکامی اپنے ساتھ تھکن اور گرانی لے کر آتی ہے ۔ یہ تھکن اور گرانی ناکامی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں مسدود کر دیتی ہے اور ناکامی کے اثرات کو دو چند کر دیتی ہے۔

ناکامی سے دوچار شخص اپنے آپ کو جس قدر تھکا ماندہ محسوس کرتا ہے کوئی دیگر شخص اپنے آپ کو اس قدر تھکا ماندہ محسوس نہیں کرتا۔اسی طرح کامیابی ایک ایسا عمل ہے جس سے بڑھ کر چست کر دینے والی چیز دنیا میں موجود نہیں۔کامیابی ایک ایسا عمل ہے جو فاضل کام کو بھی خوشگوار بنا دیتی ہے۔

(جاری ہے)

انسان منٹوں میں وہ کام بھی نبٹا لیتا ہے جن کو نبٹانے میں پہلے گھنٹے لگایا کرتا تھا۔

فرحت بخش احساس مزید کامیابیوں کو گھیر لاتا ہے اورناخوشگوار احساس مزید ناکامیوں کو بغل میں دبالیتا ہے۔ناکامی کے بعد توانائی کو جمع کرکے میدانِ کارزار میں کودنا مردوں کا شیوہ ہے اور ناکامی کے بعدتھکن اور مایوسی کا شکار ہو کر خود کو توڑ پھوڑ لینا بزدلوں کا شیوہ ہے۔ٹھوکر کھا کر گرنا بری بات نہیں بلکہ ٹھوکر کھا کر گر پڑنا اور پھر دوبارہ سنبھل کر نہ اٹھنا بری بات ہے۔

ٹھوکریں رکاوٹیں اور شکستیں ہمیں مایوس اور بددل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہمارے شوق خواہشات اور جذبہ طلب میں استعداد اور اشتعال پیدا کرکے اور ہماری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ہیں۔ ٹھوکریں دراصل مہمیز ہیں، تازیانہ ہیں، جو ہمیں آگے بڑھنے بہتر بننے اور حصول مقصد کے لئے تندہی و تیزی سے عمل کرنے کی ترغیب دہتی ہیں۔ شکست ، ناکامی اور ٹھوکر سے کبھی مایوس اور بددل نہ ہونا چاہیے بلکہ ٹھوکر کو ایک تازیانہ سمجھنا چاہیے اور زیادہ استقلال، ہمت اور تندہی و تیزی سے حصولِ مقصد کے لئے کوشاں ہو جانا چاہیے۔

ممکن ہے کہ ایک ٹھوکر کئی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ زندگی کے دباؤ یا گھٹن پر جب صبر کیا جاتا ہے تو یہ دباؤ ایک نئی دنیا ، نیا سبق اور نیا باب عطا کرجاتا ہے۔قدرت چھوٹے سے دباؤ کے بعد بہت نواز دیتی ہے ۔ انسانی فطرت ہی زندگی کے مختلف چیلنجز سے لڑنے والی بنائی گئی ہے۔جو لوگ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہوتے ہیں اور ان کے بڑے انہیں زمانے کی گرم سرد سے بچانے کے لئے مختلف قسم کے سائبان تانے رکھتے ہیں، مشاہد ہ میں آیا ہے کہ ایسے لوگ کمزور پڑجاتے ہیں اور مسائل سے لڑنے کی بجائے ہار مان جاتے ہیں۔

مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے ایسے لوگ راہِ فرار حاصل کرنے کے مختلف طریقے اپنانے لگتے ہیں۔اکثر کامیابی انہیں کو ملتی ہے جو محروم ہوتے ہیں اور محرومی انہیں تڑپا کے رکھ دیتی ہے۔۔ جب انسان کسی چیز کی کمی محسوس کرتا ہے یا کسی چیز مثلاَ صحت دولت محبت دوستی یا کامیابی سے محروم ہوتا ہے تو اس میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ اس کمی کو پورا کرے ۔

یہ احساسِ کمتری اُسے مجبور کرتا ہے کہ اپنی برتری قائم کرنے کی سعی کرے۔ محرومی کی اہمیت یہیں سے شروع ہوتی ہے جب لوگ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں اور ان کی انا مجروح ہوتی ہے ۔ انہیں کمتری کا احساس ناقابل برداشت لگنے لگتا ہے اور پھروہ اپنی پوری طاقت اس بات کو ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں کہ ہم کمتر نہیں ہیں۔پھر وہ راستے کی ہر رکاوٹ سے نبردآزما ہو جاتے ہیں ۔

اپنا راستہ بنانے کی اس جدوجہد کے پیچھے دراصل صرف یہی لگن کار فرما ہوتی ہے کہ ہمیں آسانی سے شکست نہیں دی جا سکتی۔
ہر وقت دنیا ہمیں احساس دلاتی رہتی ہے کہ ہم کمتر اور کمزور ہیں۔سب سے پہلے ہمارے والدین ہم پر ثابت کرتے ہیں کہ ہم کمتر ہیں۔ پھر اسکول میں استاد یہی بات ہمارے ذہن پر مرتب کرتا ہے پھر ہمارا آقا اپنی بالا دستی جتاتا ہے۔

ہمیں اپنا یہ احساس کمتری ناقابلِ برداشت محسوس ہوتا ہے پھر ہم اس دنیا پر ثابت کرنے کی سعی شروع کر تے ہیں کہ ہم کمتر نہیں بلکہ بر تر ہیں۔اگر اس کوشش میں ہمیں کامیابی نہ ملے تو ہم خواب و خیال کی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔ اپنی انا کو منشیات کے ذریعے تھپک کر سلا دیتے ہیں۔انسانی ذہن کی یہ ترکیبیں فراریت کے زمرے میں آتی ہیں۔اگر انسان تمام تر دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود اپنی شکست نہ مانے اور جدوجہد کرتار ہے تو کامیابی بالاخر اس کے قدم چومتی ہے۔

مایوسی اور بد دلی شکست اور ناکامی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔بے شک مایوسی اور ناامیدی بہت سے لوگوں کو نکما کر کے رکھ دیتی ہے لیکن یہی مایوسی اور ناامیدی کئی ایک لوگوں کو مکمل طور پر بیدار بھی کر دیتی ہے اور روبہ عمل کر دیتی ہے ۔
جب انسان اپنے مسائل سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کی ٹھان لیتاہے تو غائبی مدد بھی شامل ہو جاتی ہے ۔ اپنے مسائل سے لڑ کر اُن پر فتح پانے والوں کی دنیا معترف بن جاتی ہے اور ہر فتح پر ایک عجیب سے مسرت حاصل ہوتی ہے ۔

دوسروں کے مسائل سے لڑ کر ان کو سلجھانے والوں کی راہ میں تو لوگ آنکھیں بچھانے لگتے ہیں۔ انسانی فطرت ہی زندگی کے مختلف چیلنجز سے لڑنے والی بنائی گئی ہے۔ایک لاطینی مفکر کا قول ہے اللہ تمہیں مصائب میں اس لئے مبتلا کرتا ہے کہ تمہارے جسم کے پٹھے مضبوط ہو جائیں۔کامیاب لوگوں کی سوانح حیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام نامور اور کامیاب انسان بلند حوصلہ ہوتے ہیں۔

مشکلات پر آ ہیں نہیں بھرتے بلکہ ان کے خلاف بھرپور جنگ لڑ تے ہیں۔وہ مشکل کو بھانپ کر اس کا مقابلہ کرنے کی ترکیب نکالتے ہیں ۔وہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا بھر پور استعمال کرتے ہیں ۔وہ آسانی سے نہ ٹلنے والے اور جلد ناامید نہ ہونے والے ہوتے ہیں۔ وہ انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے کامیابی کے گلے میں رسی ڈال کر اسے اپنی باندی بنا لیتے ہیں۔

شہرت اور کامرانی کی منزل تک وہ سیدھے اور ہموار رستے سے نہیں پہنچے تھے۔ ان کے راستے میں قدم قدم پر پیچ وخم اور نشیب و فراز آتے رہتے تھے۔ وہ بار بار ٹھوکریں کھاتے رہے، ناکامیوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں لیکن ہر مرتبہ ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتے ہیں ہر ناکامی کے بعدخود کو سنبھالتے ہیں اور ہر محرومی کو صبرو استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔

لیکن منزل مقصود کی طرف ثابت قدمی کے ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ کامیاب آدمی کے ارد گرد کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ان کی کامیابی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ وہ اپنے اندر کی حسد کی آگ کوٹھنڈا کرنے کے لئے کامیاب آدمی کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔جو بھی اپنے حالات کو بہتر بنانے اور ترقی کرنے کے لئے جدو جہد کرے ، اس کوحسد و رشک کا سامنا رہتا ہے۔

اگریہ اعتماد ہو کہ جو کچھ کر رہے ہیں درست ہے تو اعتراض اور تنقید کرنے والوں کے زہریلے جملوں کوسن سن کراپنے آپ کومتزلزل نہیں کرنا چاہیے۔اپنے اوپراعتماد کو کمزورنہیں ہونے دینا چاہیے۔اپنی منزل کھوٹی نہیں ہونے دینا چاہیے، بلکہ ذرا سی رفتار تیز کر لینا چاہیے۔یہی تنقید کرنے والوں کے لئے سب سے بڑ ی سزاہے۔ کبھی آپ نے کاروں کے پیچھے کتوں کو بھونکتے دیکھا ہے۔

کاروں نے کتوں کا کیا بگاڑا ہوتا ہے ۔ کتے صرف کاروں کو بھاگتا نہیں دیکھ سکتے۔ جب کار کی سپیڈ بڑھتی ہے تو کتے اور تیزی سے دوڑتے ہیں اور زیادہ بھونکتے ہیں ،جب کتے کار کو نہیں پہنچ پاتے تو وہ تھک ہار کر رک جاتے ہیں اور زمین پر لیٹنے لگتے ہیں۔کچھ لوگوں میں حوصلہ شکنی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے شب و رو زاپنی تشنہ آرزوؤں اور تمناؤں پر ماتم کرنے میں گزارنے لگتے ہیں۔

وہ خود ترسی کے عادی بن جاتے ہیں۔کچھ لوگ زندگی کو اس لئے اذیت ناک بنا لیتے ہیں کہ وہ ہر ناکامی کیلئے اپنی ذات کو موردِ الزام قرار دینے لگتے ہیں۔ اگر ان سے یہ غلطی نہ ہوتی تو وہ کبھی ناکام نہ ہوتے۔ اگر یہ حماقت نہ کی ہوتی تو آج عیش کر رہے ہوتے۔میری قسمت ہی خراب تھی۔ایسے لوگ ہمیشہ یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کاش دوبارہ دن لوٹ آئیں تو ہر گز غلطی نہ کریں۔

وہ اس غلطی کو دوبارہ نہیں کریں گے۔ لیکن کوئی نئی غلطی کرلیں اور پھر اس پر پچھتاتے پھریں گے۔اور کہیں گے اگر میں اس غلط راستے پر چلنے کی بجائے یہ صحیح راستہ اختیار کرتا تو زندگی کے سفر میں کامیابی کی منزل پا لیتا۔جب ہم بار بار ایک ہی غلطی کو دہراتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات ثبت ہو جاتی ہے کہ ہم بدقسمت واقع ہوئے ہیں ۔برے دنوں میں بدقسمتی کے خاتے میں ہر چیز ڈال کر خود کو بے حرکت کر لینے کی روش سے خوش قسمتی مزید دور چلی جاتی ہے۔

زندگی کے ناموافق حالات زندگی کے نئے زینے ہوتے ہیں۔ جن کو استعمال کر کے آدمی آگے بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ناموافق حالات سے نفرت اور شکایت کا سبق نہ لے بلکہ مثبت ذہن کے تحت اپنے لئے نیا مستقبل بنانے میں لگ جائے۔
زندگی ہاکی کے کھیل کی مانند ہے۔ اس کھیل میں مخالف سمت میں بھی اتنے ہی کھلاڑی کھڑے ہوتے ہیں جن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ گیند کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں ۔

وہ اپنی سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ گیند گول تک پہنچ جائے۔ وہ گیند کو چھیننے اور مخالف سمت کی طرف لے جانے کی اپنی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن جو شخص ان تمام رکاوٹوں کو عبور کر تا ہوا تمام حملہ آوروں سے بچتا بچاتا ہوا گیند کو کورٹ میں ڈال دیتا ہے تماشائی اُس کے لئے تالی بجاتے ہیں۔ زندگی کی مثال بھی یہی ہے کہ نامساعد حالات سے لڑتے ہوئے مخالفوں کی مخالفتوں کو برداشت کرتے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے جو شخص اپنی منزل کو پالیتا ہے وہی مردِ مجاہد کہلاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :