شام۔۔خون آشام سر زمین

منگل 11 فروری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

حکمرا نوں کی ایک معمو لی سی غلطی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس کا ا نجام کتنا بھیانک ہوتا ہے اس کی عبر تناک مثال شام ہے جوایک اسلامی ملک ہے آج ملک شام دور حا ضر کی ایک ایسی اسلامی ریاست کے روپ میں ڈھل چکی ہے جہاں بد ترین انسانی المیے جنم لے چکے ہیں۔ہوس اقتدار میں ا ندھے شامی حکومت اور اس کی افواج اپنے ملک کی ہی عوام کے خون کی پیاسی ہو رہی ہے، کیا معصوم بچے،بوڑھے، عورتیں سب کا خون بے دردی سے بہا یا گیا اور جا رہا ہے،نو جوانوں کو سرکاری فوج اغواء کرکے بد ترین تشدد کے بعد موت کی نیند سلانے میں مصروف ہے،سرکاری جہازوں اور توپوں،ٹینکوں کی مدد سے ا ندھا د ھند بمباری کے نتیجہ میں و سیع پیمانے پر نہ صرف تباہی اور بر بادی ہوئی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شہر یوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیںآ ج شام کے شہر، قصبے، گلیاں اور بازار کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں،ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر نظر آتے ہیں،زمانہ جاہلیت میں قابض ا فواج جس طرح مفتوح علاقوں اور لو گوں پر بد ترین طرح کے مظالم ڈھایا کرتی تھیں ان کی جھلک آج شام کے ملک میں نظر آتی ہے با غیوں اور سرکاری افواج دونوں نے آپس کی خون ریز لڑائی میں شہریوں کوجانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح ہسپتالوں، سکولوں، دفاتروں میں ہی زندہ دفن کر دیا۔

(جاری ہے)

اقتدار کی ہوس میں مبتلا شامی حکمرانوں نے ملک شام کو ایک خون آشام ریاست میں بدل کر رکھ دیا ہے۔شام کی موجودہ فوج ریاست اور عوام کی نسبت صرف اور بشرالاسد کی وفادار ہے۔عوامی حقوق اور ان کی رائے عامہ کا احترام نہ کرنے کا ا نجام یہی ہوتا ہے2011 میں ایک معمولی عوامی مطالبے کو نہ صرف نظر انداز کرنے بلکہ احتجاج کو د بانے کی ریاستی کوشش آج ایک بھیا نک ا نجام کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔

مارچ2011میں موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے جو اپریل میں پورے ملک میں پھیل گئے مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت خودمعاشی اور جمہوری ا صلاحات کرے ان د نوں شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں Arab spring کے نام سے احتجاجی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں جن کے اثرات سے بھی شامی مظاہرین نے زور پکڑا۔اپریل 2011میں بشر الاسد نے اپنی وفادار فوج کو ان مظاہرین سے نپٹنے کا حکم دیا اور پھر جس طرح فوج نے طاقت کا م استعمال کیا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔


ہومن کئیر فاؤنڈیشن جو شام میں مہاجرین و متاثرین کے لئے 2011ہی سے کام کر رہی ہے کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک شام کے انسانی المیے کے نتیجہ میں1,31,98 571 افراد کو فوری امداد کی اشد ضرورت ہے ان میں سب سے زیادہ بری حالت عورتوں اور بچوں کی ہے،41لاکھ سے زائد شامی شہری مصر،ترکی،عراق،لبنان اور شمالی ا فریقہ سمیت دیگر ممالک میں مہاجرین کیمپوں میں ز ندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،42 لاکھ پچاس ہزار شامی اندرونی طور پر بے گھر ہوچکے ہیں۔

21لاکھ48ہزار شامی ابھی تک مہاجرین ر جسٹریشن کے مراحل سے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں ،اقوام متحدہ کی ر پورٹ کے مطابق ابھی تک1,50,000 لوگ شامی حکومت اور باغیوں کی جنگ کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں ا قوام متحدہ کی بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم کی ر پورٹ کے مطابق دس ہزار شامی بچے ابھی اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں ، آزاد ذرائع کے مطابق ابھی بھی شام میں باغی اور حکومت دونوں معصوم بچوں کو زبردستی جنگ میں نہ صرف استعمال کر رہے ہیں بلکہ ان پر بد ترین تشدد بھی کیا جا رہا ہے شام کے مختلف حصوں میں ہونے والی لڑائی اب سول وار میں تبدیل ہو چکی ہے،اپوزیشن اور حکومت مابین چپقلش کا فائدہ بیرونی اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طاقتوں نے اٹھایا اور باغیوں کو مسلسل امداد مل رہی ہے،دوسری طرف روزانہ چھ ہزار کے قریب شامی نقل مکانی کر رہے ہیں اور حملوں کے نتیجوں میں مزید ہلاکتوں کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو حالات کی مزید خرابی اور ا بتر صورت حال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔


شام کے موجودہ صدر بشر الاسد سابق صدر حافظ الاسد کے بیٹے ہیں جن کا انتقال د س جون 2000 کو ہوا تھا،اس وقت موجودہ صدر کی عمر34 برس کی تھی اور قانون کے مطابق صدر کے عہدہ کے لئے عمر چالیس برس ہونا لازم تھی اس لحاظ سے وہ صدر نہیں بن سکتے تھے۔جس طرح کے مفاد پرست فیصلے ہماری قومی اسمبلی کرتی ہے اسی طرح کا فیصلہ اس وقت کی شام کی پارلیمنٹ نے کیا اور ہنگامی طور پر قانون میں تبدیلی کر کے صدر کے عہدہ کی معیاد 34 برس کردی اور اس طرح مفاد پرستوں کے ٹولے نے ناتجربہ کار بشر الاسد کو شام کا صدر بنوا دیا اور یہ سب کیچھ ان کے والد کی وفات کے دس روز کے اندر اندر ہوا اور سات برس کے لئے چو نتیس سال کے نوجوان کو شام کا صدر بنوادیا گیا جوانوں کی نمائیندگی کرنے والے بشر الاسد نے ر یفرنڈم میں97% ووٹ حا صل کئے تھے اسد فیملی کا تعلق ایک مینارٹی جماعت سے تھا جو گزشتہ چار دہائیوں سے شام پر حکومت کر رہے تھے بشر الاسد کی بیوی ایک برطانوی مسلم خاتون ہیں ۔

بشر الاسد کے والد حافظ الاسد نے1970میں اس وقت کی شامی فوج کی طاقت اور اقلیتی سیاسی جماعتAlawite کی حمایت سے شام پرکنٹرول حا صل کیا تھااس وقت سے یہی اسد خاندان شام پر قابض تھا۔تیرہ برس سے شام پر حکمرانی کرنے والے بشر الاسد سے 2011 سے اندرونی طور پر اور بیرونی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ باعزت طریقے سے اقتدار سے الگ ہو جائیں لیکن ہٹ دھرمی کے باعث اور ہوس اقتدار میں انکار کرتے رہے اس کا انجام سب کے سامنے ہے کافروں کے ملک میں معمولی سی بات جو قانون اور ضمیر کے خلاف ہو حکمران استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن اسلامی مملکت شام کے اس حکمران کی خونی پیاس ابھی بھی نہیں بھجی اور اپنے ہی ملک کی عورتوں، بچوں، لڑکیوں اور بوڑھوں کو دیار غیر کے در پر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ،حقیقی معنوں میں اپنے ہی بے گناہ شہریوں کے خون کی ندیاں بہا کر بھی ضمیر جاگ نہیں سکا۔

ایک المیے کے بعد دوسرا المیہ جنم لے رہا ہے لیکن بشر الاسد اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ایک شیطان ہے جو اس وقت سر زمین شام پر موجود ہے جو کسی کی نہیں مانتا،کسی کی نہیں سنتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :