خیرپور میں دوروز

پیر 10 فروری 2014

Muhammad Younas Qasmi

محمد یونس قاسمی

خیرپور صوبہ سندھ کاایک ضلع ہے،15ہزار 910مربع کلومیٹر پر پھیلا یہ ضلع صوبہ کے بڑے اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔اس کے شمال میں سکھر،جنوب میں سانگھڑ اور نواب شاہ،مغرب میں لاڑکانہ اور نوشہرو فیروز کے اضلاع ہیں جبکہ مشرق میں اسکی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔یہ ضلع تاریخی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ تقسیم ہند سے قبل یہاں ٹالپر خاندان کی قائم کردہ ریاست خیرپورموجود تھی،یہ ریاست 1783ء سے 1955ء تک قائم رہی۔

14اگست 1947کو ریاست نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔1955ء میں حکومت کی جانب سے ریاستوں کے خاتمے کے اعلان کے بعد ریاست خیرپور کا خاتمہ کرکے اسے مغربی پاکستان میں شامل کردیا گیا۔پاکستان کی تاریخ اور قبل از تقسیم ہند کی کئی اہم شخصیات کا تعلق خیرپور سے ہے جن میںآ ٹھویں صدی کے مشہور صوفی شاعر سائیں سچل مرست،انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی معروف تاریخی شخصیت اور حر تحریک کے بانی جناب سید صبغت اللہ راشدی،فنکشنل لیگ کے سربراہ مرحوم پیر پاگاڑا،صوبہ سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ،مسلم لیگ کے سابق رہنما سید غوث علی شاہ اور سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری شہیدشامل ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں کے تعلیمی اداروں میں معروف نام شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی،جامعہ دارالھدیٰ ٹھیڑی اور جامعہ حیدریہ انوار الھدیٰ شامل ہیں۔علامہ علی شیر حیدری کا تعلق بلوچ قبیلہ کی شاخ چانڈیو کے گھرانے سے تھا۔معروف دینی درس گاہ جامعہ حیدریہ کا قیام علامہ علی شیر حیدری عمل میں لائے جہاں درس نظامی،تقابل ادیان،اسلامی معاشرت اور تمدن کے ساتھ سندھی تہذیب وثقافت کے موضوع پر علمی وتحقیقاتی خدمات سرانجام دی جارہی ہیں۔

علامہ حیدری نے پورے سندھ میں اسلامی معاشرت کے تحفظ اور اس میں درآنے والی خرافات کی اصلاح کی کوششیں کیں اور لوگوں کو انکی اصل اساس یعنی آغاز اسلام سے نسبت جوڑنے پر زور دیا،انکا خیال یہ تھا کہ مسلم معاشروں میں اتحادواتفاق صرف اور صرف اساس اسلام سے مضبوط ربط اور منظم تعلق سے ہی استوار کیا جاسکتا ہے۔ 1979ء میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے اشارہ پر فرانس میں رہائش پذیر شیعہ رہنما جناب خمینی نے جب ایران میں ایک انقلاب بپا کیا اور اسے اپنے ہمسایہ اسلامی ممالک میں داخل کرنے کیلئے وہاں کے شیعہ رہنماوٴں کو جدوجہد کرنے پر اکسایا اورہرطرح کی معاونت کی تو پاکستان کے علماء اس سارے کھیل کے صرف اس لیے مخالف ہوگئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ امریکی برانڈ اسلام مسلم معاشروں میں فرقہ واریت،انتہاپسندی اور نفرت پیدا کررہا ہے۔

پاکستان کے جن علماء نے ایران کے اس رویہ کے خلاف جدوجہد کی ان میں علامہ عبدالستار تونسوی،ڈاکٹر خالد محمود،،مفتی ولی حسن ٹونکی،مولانا سلیم اللہ خان،مولانا اسفند یار خان،ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا حق نواز جھنگوی اور علامہ علی شیر حیدری کے نام نمایاں ہیں۔علامہ حیدری نے حالات کادرست سمت تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ” امریکہ مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے جبہ ودستارمیں چھپے جعلی علماء پیدا کررہا ہے۔

ان جعلی علماء کا کام معاشرے میں فروعی اختلافات کو زور دیکر بیان کرنا ہے تاکہ مسلم ممالک میں مذہب کے نام پر خانہ جنگی کی کیفیت اور ماحول پیدا کرکے معاشرے کو دین بیزار بنایا جاسکے۔دوسری جانب وہ مغربی اقدار کی سرپرستی اور فروغ کیلئے کوشاں ہے تاکہ معاشرے سے غیرت وحمیت کا خاتمہ کیا جاسکے۔تیسرے محاذ پر وہ آمروں اور اپنے ایجنٹوں کو مسلم ممالک میں اقتدار پر مسلط کرواتا ہے تاکہ وہ مہنگائی ،کرپشن اور ظلم کا بازار گرم کریں جس سے لوگوں میں ریاست کے خلاف نفرت اور بغاوت کا جذبہ پیدا ہو۔

“یہ ساری صورتیں پاکستان میں آزمائی جارہی ہیں اور پاکستان کو تباہی کی جانب لے جارہی ہیں۔دیگرایسے مسلم ممالک جنہیں بغاوت کی تحریکوں،اپنے ہی ملک کے عوام کے مابین فسادات اور پرتشدد کارروائیوں کا سامنا ہے، کا بھی اگر بغور جائزہ لیا جائے تو وہاں پر بھی یہی صورتیں آزمائی گئی ہیں اور اسی کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں۔علامہ علی شیر حیدری کو شاید مسلم معاشروں کے تحفظ کی جدوجہد کرنے کے جرم 17 اگست 2009کو خیرپور میں شہید کردیا گیا۔

آپ کی یاد میں ہر سال ربیع الاول کے آخر میں ”امام اہل سنت کانفرنس“کا انعقاد جامعہ حیدریہ خیرپور سندھ میں کیاجاتا ہے جس میں ملک بھر اہل سنت کی تمام تنظیمات کے نمائندے شریک ہوتے ہیں اور علامہ علی شیر حیدری کی علمی وفکری خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔اس سال یہ کانفرنس 7فروری کو منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی اہل سنت والجماعت کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی تھے۔

اس کانفرنس میں نماز جمعہ کے خطاب میں علامہ علی شیر حیدری کی مرتب ومدون کردہ کتاب”فتاویٰ تکفیر الروافض“کی رونمائی بھی کی گئی۔784صفحات پر مشتمل اس کتاب میں دوسری صدی ہجری سے لیکر اب تک کے فقہاء،محدثین،مجتہدین،مفسرین اور محقق علماء کرام ومفتیان عظام کی اہل تشیع کے متعلق فتاویٰ جات وآراء کو شامل کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہل سنت کا اہل تشیع کے ساتھ اختلاف کوئی آج کل کا نہیں بلکہ یہ چودہ صدیوں پر محیط ہے اور یہ اختلاف اصولی وبنیادی عقائد کا اختلاف ہے،اسے فروعی اختلاف کہنا یا سمجھنا لاعلمی کے مترادف ہے۔

اس کتاب کے شروع اہل سنت والجماعت کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی کا مقدمہ بھی بہت اہمیت کا حامل اور خاصے کی چیز ہے جس میں علمی وتاریخی دلائل کے ساتھ چودہ صدیوں میں ہونے والی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے اسباب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس موقع پر اہل سنت والجماعت کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں،مولانا اورنگزیب فاروقی،مولانا ثناء اللہ حیدری،مولانا عبدالجبار شیخ اور دیگر شخصیات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور ہرایک نے اس علمی وتاریخی کتاب کی اشاعت پر مسر ت کا اظہار کیا۔

اس کتاب کا ٹائٹل انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے مگر جس معیار کا کاغذ اس کتاب کو لگایا گیا ہے وہ اسے چار چاند لگانے کی بجائے گہنارہا ہے۔کتاب پر قیمت نہیں لکھی ہوی مگر جس قیمت پر یہ فروخت ہورہی تھی اس کا میں ذکر نہیں کرتا مگر اس کتاب کے ناشر ادارے ”خلافت راشدہ اکیڈمی“کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے اور اپنے قارئین کی مالی استطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت مقرر کرنی چاہیے۔

یہ کتاب خلافت راشدہ اکیڈمی ،لقمان،اعظم کالونی،خیرپور سندھ سے یہ کتاب دستیاب ہے۔
اہل سنت والجماعت کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے ”امام اہل سنت کانفرنس“سے کلیدی خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھامگر پاکستان میں اسلام نافذ تو کیا ہوتا بلکہ اسلام پسندوں پر پاکستان کی سرزمین کو تنگ کردیا گیا ہے۔

اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ نارواسلوک کیا گیا،انہیں ٹارگٹ کرکے باری باری قتل کردیا گیا۔کئی برس سے حکمران غلط پالیسیاں اپنائے ہوئے جنکی وجہ سے ملکی ابتر ہوتے جارہے ہیں۔علامہ علی شیر حیدری نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی پرامن جدوجہد کی اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کی جس پر انہیں شہید کردیا گیا،آج تک ان کے مکمل قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔

نفاذ شریعت کیلئے پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔اب حکمران طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں،طالبان کی جدوجہد بھی نفاذ شریعت کیلئے،اس نظام کے نفاذ کیلئے انہوں نے جس راستے کو چنا یہ انکا اپنا فیصلہ مگر مطالبہ بالکل درست ہے جس پر ہم سب دعا گوہیں کہ اللہ پاکستان کو امن وآشتی کا گہوارہ بنائے،یہاں شریعت کا نفاذ ہو اور پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر اس خطے میں نمودار ہو۔

ہم امریکہ،ایران سمیت تمام ممالک کی پاکستان میں مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کیلئے اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔“
اگلے روز خیرپور کے” سٹی گارڈن “میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سے متعلق میرے بہت ہی پیارے دوست زبیر جونیجوکی تقریب نکاح تھی جس میں شرکت کیلئے ہم نے علامہ محمد احمد لدھیانوی سے درخواست اور نکاح پڑھانے کا مطالبہ کیا۔علامہ لدھیانوی نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری اس درخواست کو قبول کیا اور ”سٹی گارڈن“میں زبیر جونیجو کا نکاح پڑھایا۔اس موقع پر زبیر جونیجو اورہماری بھابھی بنت صاحبزادوبہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ رب العزت انہیں بہت خوشیاں نصیب فرمائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :