ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم اسباب اور سد باب

منگل 4 فروری 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ویسے تو پورے ملک میں جرائم کی شرح بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے کوئی شہر اور قصبہ ایسا نہیں جہاں امن و سکون ہو اور شہری لٹ نہ رہے ہوں ابھی حال ہی ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور میں جرائم پیشہ عناصر کی بلاخوف و خطر جاری کارروائیوں نے کرائم کنٹرول ٹیموں کو مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔ ساڑھے 5 ماہ میں 213 شہریوں کو قتل کر دیا گیا، 14 شہریوں کو تاوان کیلئے اغواء کیا گیا، 12 افراد ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہوئے، 41 اندھے قتل کی وارداتوں کی تفتیش نے انوسٹی گیشن سیل کو مشکل میں ڈال دیا جبکہ 123 وارداتوں کی تحقیقات نہ ہو سکیں۔

بڑھتے ہوئے جرائم کی رپورٹ پر اعلیٰ پولیس افسر بھی حیران ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ قتل کی وارداتیں سٹی ڈویژن میں ہوئیں جہاں 44 شہریوں کو قتل کیا گیا۔

(جاری ہے)

کینٹ ڈویژٓن میں 41، صدر ڈویژن 37، ماڈل ٹاون ڈویژن میں 31، سول لائن ڈویژن میں 28، اقبال ٹاون ڈویژن میں 20 شہریوں کو قتل کیا گیا۔ سٹی ڈویژن میں 24 وارداتوں، صدر ڈویژن اور ماڈل ٹاون ڈویژن کی 22، کینٹ ڈویژن کی 20، سول لائن ڈویژن کی 19، اقبال ٹاون ڈویژن کی 9 وارداتوں کی انوسٹی گیشن نہیں ہو سکی۔

اخبارات میں شائع ہونے والی کرائم کی خبروں کو ہم نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں اس لیے کہ ان واقعات میں ہمارے ساتھ کوئی واقع نہین ہوا ہوتا یہی ہمارا مجموعی رویہ ہے لیکن جب ہمارے خود کے ساتھ کوئی واقع ہوتا ہے تو ہمیں اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات اصل سے کم دکھائی دیتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک واقعہ میری فیملی کے ساتھ پیش آیا تو محسوس ہوا کہ ہمارے دوست احباب جو کچھ کہتے ہیں وہ سب درست ہے ہوا کچھ یوں کہ ہماری بیگم گھر کا سود سلف خریدنے غالب مارکیٹ میں گئیں وہاں سودا سلف لے کر جب وہ گاڑی میں بیٹھنے لگیں تو اچانک وہ لڑکے ایک موٹر سائیکل پر آئے اور ان سے ان کا ہینڈ بیگ جو انہوں نے اپنے کاندھے سے لٹکایا ہوا تھا پر ہاتھ ڈالا اور کھینچنے لگے اس دوران ڈرائیور نے گاڑی بگھانے کی کوشش کی مگر بے سود ان لڑکوں نے ڈرائیور کو زد و کوب کیا اور بیگ چھین کر فرار ہوگئے اس واقعے کی اطلاع قریب ہی تھانہ غالب مارکیٹ کو کر دی گئی مگر پولیس کا روئیہ وہی راوئیتی تھا ان کا کہنا تھا کہ شکر کریں جان بچ گئی۔

۔اس بات کا ہم نے شکر کیا کہ جان بچ گئی مگر سوال یہ ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں پولیس جرائم روکنے میں کیوں ناکام ہو چکی ہے؟ان سوالوں کے جواب ہمارے ارباب بست و کشاد کے پاس نہیں ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستانی عوام دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں ہے اگر دیکھا جائے تو فلحال اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی زمہ دار ر حکومت ہوتی ہے اور حکومت کی وجہ جوز بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ انہیں پر امن ماحول مہیا کرے تا کہ وہ اطمینان قلب سے اپنے روز مرہ کے فرائض ادا کر سکیں لیکن حکومت اپنی یہ ذمہ دار پوری کرتی نظر نہیں آتی ،یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکورٹی اداروں کا کاروبار فروغ پزیر کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ پرائیویٹ سیکورٹی اداروں کے کاروبار میں بڑئے بڑے لوگ ملوث ہیں جن کے کاروبار کے فروغ کے لئے ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال ہی معاون ہے۔


کچھ عرصہ پیشتر وزیر اعلی پنجاب جناب میاں شہباز شریف نے جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے خوش خبری سناتے ہوئے کہا تھا کہ امن امان میں بہتری کے لئے صوبے میں مانیٹرنگ کا نظام قائم کررہے ہیں اورصرف لاہور میں 3 ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کئے جا رہیں ہیں۔ یہ بات انہوں نے لاہور میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امن چاہتے ہیں، خواہش ہے کہ لوگ فرقہ واریت، شدت پسندی اور انتہاپسندی چھوڑ کر محبتوں کا پیغام پھیلائیں، شہرمیں جرائم کی روک تھام کے لیے نیا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم متعارف کرارہے ہیں، جس قسم کی فرانزک لیباریٹری بنائی گئی ہے اس کی مثال پورے خطے میں نہیں۔

جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعلی کی اس بات کو بھی تین ماہ اک عرصہ گزر چکا ہے مگر کوئی پیش فرت نظر نہیرہی جبکہ عوام نہ صرف لٹ رہے ہیں بلکہ دن دیہاڑئے لوٹے جارہے اور پولیس وی وی آی پی ڈیوٹی میں مصروف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے قانون نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے ،مجرم بے خوف ہو چکے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کے جرم اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے کسی حد تک درست ہے مگر یہان جس طرح کے کرائم ہو رہے ہیں اس کے پیچھے غربت کم اور عیاشیاں زیادہ نظر آتی ہیں اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ لوٹ مار کی وارداتوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں، ہم کہاں جا رہے ہیں اگر ہم نے معاشرئے کی تربیت صیح رک پر نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب ہر کوئی لٹے گا اپنوں کے اور غیروں کے ہاتھوں اس لئے ضروت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو انارکی سے بچانے کے لئے حکومت ،ریاستی اداروں ،معاشرے اور والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہے تاکہ معاشرہ پر امن بن سکے ۔

اگر اب بھی سوچا نہ گیا تو پھر وقت ہاتھوں سے نکل جائے گا اور اس طرح کا غدر مچے گا کہ کچھ بھی سلامت نہیں رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :