کہیں دیر نہ ہو جائے

بدھ 29 جنوری 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

کرپشن، مہنگائی،دہشت گردی ، طالبان اور امریکہ پر اتنا کچھ اور اتنی بار لکھا جا چکا ہے کہ اب یہ موضوعات گھِس پٹ چکے ہیں۔اسی لیے تقریباََ ہر کالم نویس”گویم مشکل ، وگرنہ گویم مشکل “ کی سی کیفیت میں مبتلاء رہتا ہے کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جنہوں نے عشروں سے ارضِ پاک کو اپنے پنجہٴ استبدادمیں جکڑ رکھا ہے ۔اگر حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر آتی تو لکھنا محال نہ ہوتا لیکن بدلتے سیاسی موسموں کے باوجود حالات ہمیشہ جوں کے توں رہتے ہیں اور قوم کو ”ہر کہ آمد ، عمارتِ نَو ساخت “ کی سی کیفیت کبھی نطر نہیں آئی۔

حکومتیں بدلتی ہیں اور کچھ چہرے بھی لیکن ایجنڈا سبھی کا ایک ہی ہوتا ہے ۔
نواز لیگ کی حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں اور خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت سے بھی ،لیکن دونوں نے مایوس کیا ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ بہت مایوس۔ تحریکِ انصاف کی ”جذباتی”سیاست کا تو محور و مرکز ہی یہ تھا اور ہے کہ

خنجر چلے کسی پہ ، تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
لیکن وہ درد ، تڑپ ،کسک، جلن اور لگن ہمیں کہیں نظر نہیںآ تی ۔

تحریکِ انصاف کے” بہی خواہوں“ کو یہ بہت برا لگے گا لیکن سچ یہی ہے کہ تا حال محترم عمران خاں صاحب کا ہر” ایکشن “حصول ِاقتدار کی تگ و دَو کرتا نظر آتا ہے ۔لاریب خاں صاحب محبِ وطن ہیں۔ حصولِ اقتدار ہر محبِ وطن شہری کا آئینی حق ہے لیکن اِس کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں ۔اب ایسا بھی نہیں کہ حصولِ جاہ کے عشق میں مبتلاء ہو کر کوئی اِس مقام تک پہنچ جائے کہ
گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
انتہائی محترم خاں صاحب آجکل یہی کچھ کر رہے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تقریباََ ہر سیاسی جماعت اُن کے اِس اندازِ سیاست کی نقاد ہے اور سوائے اُن کی اتحادی جماعت اسلامی کے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جو اُن کے اِس طرزِ سیاست سے نالاں نہ ہو ۔اگر محترم عمران خاں واقعی قومی و ملّی خدمت کے جنوں میں مبتلاء ہیں تو پھر اُنہیں اپنی اداوٴں پہ غور کرنا ہو گا ۔
تحریکِ انصاف سے تو پھر بھی یہ خیال کرتے ہوئے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ وہ کارزارِ سیاست کی نوزائیدہ اور نَو وارد جماعت ہے جسے حکمرانی کا تجربہ نہیں لیکن نواز لیگ تو اِس میدان کی کُہنہ مشق کھلاڑی ہے اور خوب جانتی ہے کہ مشکل گھاٹیوں کو کیسے پار کیا جاتا ہے۔

آٹھ ماہ گزر چکے لیکن نواز لیگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور تا حا ل کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اُس نے کیا کرنا ہے ۔میاں برادران کا یہ انوکھا اور نرالا اندازِ سیاست دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاست کے سَرکش گھوڑے کی طنابیں کھینچنے کی اُن میں سَکت ہی باقی نہیں بچی ۔بجا کہ ”دودھ کا جَلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے “ اور میاں برادران تو ایک نہیں دو،دو مرتبہ ”دودھ کے جَلے “ ہیں لیکن ایسی احتیاط بھی کس کام کی جو قوم کے اعتماد کو ہی متزلزل کر دے ۔

ہم یہ تو ہر گز نہیں کہتے کہ ”قدم بڑھاوٴ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں “ ۔کیونکہ میاں صاحب اس کا مزہ چکھ چکے ہیں لیکن دست بستہ یہ ضرور عرض کرتے ہیں کہ احتیاط لازم لیکن اِس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے بہتر یہی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کر گزریے کہ اب قوم کے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے ۔
آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر نواز لیگ کو مذاکرات یا ایکشن کا مینڈیٹ دیا لیکن تا حال حکومت گو مگو کی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہے جبکہ اِس دوران طالبان نے متواتر دھماکے کرکے فوجی جوانوں سمیت بہت سے شہریوں کو شہید کر دیا ۔

بنّوں میں افواجِ پاکستان پر براہِ راست حملہ کرنے کے بعد طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے یہ کہا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف تھا ۔فوج نے ردِ عمل میں جارحانہ کارروائی کرکے طالبان کو یہ درست پیغام دے دیا کہ اب مزید صبر کی گنجائش نہیں ، وہ ایک ماریں گے تو ہم دَس ۔شنید ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب نے بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو بھرپور جواب دینے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن اب بھی حکومتِ وقت میں جھجک کا واضح عنصر نظر آتا ہے ۔

طالبان نے ایک دفعہ پھر مذاکرات کی پیش کش کرکے حکومتی بیقراری میں اضافہ کر دیا ہے ۔اور اب ایک دفعہ پھر ایوانِ اقتدارکے بزرجمہر سَر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں حالانکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ افواجِ پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی سے پریشان ہو کر طالبان نے یہ سیاسی چال چلی ہے ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ طالبان کے چالیس ، پچاس گروہوں میں سے اچھّے اور بُرے طالبان کو الگ کیا جائے گا ۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت کے پاس ایسی کونسی چھلنی ہے جس میں چھان پھٹک کروہ اچھّے اور بُرے طالبان کو الگ کرے گی ۔حقیقت تو یہی ہے کہ طالبان کے سبھی گروہ اِس وقت خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث اور مُلا فضل اللہ کی چھتری کے نیچے ہیں ۔کیا حکومت کے لیے یہ کافی نہیں کہ طالبان کا متفقہ امیر مُلا فضل اللہ حکومت کا باغی اور بھگوڑا ہے ؟۔

کیا حکومت اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں نہیں جانتیں کہ ملا فضل اللہ کے پاس افغانی پاسپورٹ ہے اور وہ اُسی پاسپورٹ پر بیرونی ممالک کے دورے بھی کرتا ہے ؟۔اور سلگتا ہوا سوال یہ کہ کیا افغانستان میں سرِ عام پھرنے اور بیرونی دَورے کرنے والے مُلا فضل اللہ کو واصلِ جہنم کرنا امریکہ کے لیے کوئی مسلہ ہے ؟۔جب ملا فضل اللہ ”کنڑ“ میں افغان حکومت کی پناہ میں تھا تب بھی امریکہ کے لیے اسے ”شکار“ کرنا کوئی مسلہ تھا ، نہ اب ہے لیکن امریکہ ایسا ہر گز نہیں کرے گا کیونکہ اُسے پاکستان میں بَد امنی بہت مرغوب ہے ۔


یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سبھی طالبان آئینِ پاکستان کے باغی ہیں اِس لیے علمائے کرام کی طرف سے چھیڑی گئی اچھے اور بُرے طالبان کی بحث فضول ہے ۔مذہبی اور مسلکی مباحث کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔جب ہلاکو کے سپاہی بغداد کی فصیلوں پر کمندیں ڈال رہے تھے تب بغداد کے طول و عرض میں پانچ سو جگہوں پر بغداد کے علماء مذہبی و مسلکی مناظروں میں اُلجھے ہوئے تھے ۔

سکوتِ بغداد کی خون آشام داستان اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن کوئی بھی مورخ بغداد کی تباہی میں علماء کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔آج بھی وہی صورتِ حال ہے ۔کچھ مذہبی گروہ ”طالبانی شریعت“ کو عین اسلام قرار دیتے ہیں تو کچھ کھلی دہشت گردی ۔جب دست بستہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسلام بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کی اجازت دیتا ہے ؟۔

تو جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کی مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ CIA اور ”را “ کے ایجنٹ ہیں۔ اگراِس جواز کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مُلا فضل اللہ تو مسلمہ غیر ملکی ایجنٹ ہی ٹھہرے گا کیونکہ اُس کے ترجمان احسان اللہ احسان اور شاہد اللہ شاہد بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد سینہ تان کر ”ذمہ داری“ قبول کرتے ہیں ۔

کیا طالبانی عشق میں مبتلاء انتہائی محترم علمائے کرام مُلا فضل اللہ اور اُس کے ساتھی طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حکومتِ وقت سے اُن کے خلاف کارروائی کا تقاضہ کریں گے ؟۔اگر نہیں تو پھر کیا پاکستان کی تاریخ کا یہ خونچکاں باب لکھتے ہوئے مورخ علماء کے اِس کردارکو نظر اندازکر پائے گا؟۔
اَن دیکھی ، اَن جانی اور اندھی موت سے لرزہ بَر اندام لو گوں کے بارے میں یونانی داستان گو ایسوپ کہتا ہے ”مسلسل خوف کی حالت میں زندہ رہنے سے مَر جانا بہتر ہے “ ۔

فرانسس بیکن کہتا ہے ”میں نے موت کے بارے میں غور و فکر کیا اور اُسے خوف سے انتہائی کم تر درجے کا پایا “۔قوم کے سَر سے تو ہر روز بلکہ دن میں کئی کئی بار موجِ خوں گزرتی ہے لیکن آفرین ہے اُن حال مستوں پر جو خاموشی سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔یہ تو طالبان بھی جانتے ہی ہوں گے کہ اُن کی تمام تر دہشت گردی اور خباثتوں کے باوجود یہ بہادر اور عزمِ صمیم کی مالک قوم کاروبارِ حیات میں یوں مگن رہتی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور طالبانی درندگی کی بھینٹ چڑھنے والے شہیدوں کے کٹے پھٹے جسم بھی پکار پکار کے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
کرو کَج جبیں سے سَرِ کفن ، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مَرگ ہم نے بھلا دیا
ایسی قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :