اب تو آسمان بھی سرخ نہیں ہوتا

پیر 27 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

روز وہی حالات، ایک ہی طرح کا نوحہ، دل کو پھاڑ دینے والے واقعات ،کرب اور غم میں ڈوبے اپنے جگر گوشوں کے لاشوں پر ماتم کرتے انسان،آخر کب تک ایسا ہو تا رہے گا؟ڈرون سے مرنے والے ان لوگوں کو تو چھوڑیں کہ یہ انسان بھلا کہاں؟ لیکن شہر کراچی میں پچھلے کئی سالوں سے قتل و غارت گری کا شکار ہونے والے معصوموں کا خون آخراور کتنا بہایا جائے گا۔

پہلے تو ٹارگٹ کلنگ کے نام پر سیاسی جماعتوں کے افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن اب تواپنی بوڑھی ماں کے علاج کی خاطر چند روپوں کے عوض انسانوں کو پولیو جیسی سنگین بیماری سے بچائے رکھنے کے لئے صبح سے شام گلی محلوں کی خاک چھانتے ان معصوموں کو بھی لہو میں نہلا دیا گیا جس کی وجہ سے شہر قائدمیں سڑکیں ایک مرتبہ پھر لہو سے سرخ ،در و دیوار خوف اور وحشت سے کانپتے اور ہر شخص پریشان نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

پرندوں نے تو پہلے ہی اس شہر سے ہجرت اختیار کر لی ہے وگر نہ ایک دور ایسا بھی رہا کہ جب شام ڈھلتے ہی خوبصورت اور دلفریب پرندوں کے غول کے غول مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق قطار در قطار اُڑتے دکھا ئی دیتے تھے ۔معلوم نہیں کہ روشنیوں کے شہر کو کس کی نظر کھا گئی کہ جہاں بمشکل کچھ دن سکون سے گذرنے کے بعد خون آشام آسیب کا حملہ ہوتا ہے جس کی بھوک مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔

دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور یہ لوگ جب چاہیں جس کو چاہیں گولیوں سے بھون دیتے ہیں ۔چوہدری اسلم کے قتل کے بعد ایک دفعہ پھر اس خونی کھیل میں اضافہ ہو تا دکھائی دے رہا ہے ۔ظلم تو یہ ہے کہ دہشت گرد قانون اورتما م اداروں سے طاقتور ہوتے دکھا ئی دے رہے ہیں ۔آفاق احمد کے گھر کے باہر پولیس اہلکاروں کی شہادت جس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح دہشت گردوں نے پولیس موبائل کو گھیرے میں لے کر پہلے دستی بم سے حملہ کیا اور پھر اندھا دھند فائرنگ کر کے موقع پر موجود ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو خون میں نہلا دیا بلکہ ان کی امداد کے لئے پہنچنے والی موبائل وین پر بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ۔

مصدقہ ذرائع ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں میں مارے جانے والے اکثر وہ ہیں جنہوں نے 1992کے آپریشن میں کسی نہ کسی طرح حصہ لیا۔ آخریہ عنا صر کون ہیں جن کے آگے حکومت،رینجرز اور پولیس بھی بے بس نظر آتی اور یہ لوگ جب چاہیں کچھ ہی لمحوں میں خون کے اس کھیل کو شروع کر کے بیسیو ں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور انتظامیہ صرف موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا کے اپنا فرض پورا کر دیتی ہے۔

ان حالات کی خبر دیتے ہوئے کچھ روز قبل ڈی۔جی رینجرز سندھ نے پولیس افسران کے تبادلوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور ٹارگٹڈ آپریشن میں سُستی اور حالیہ خونی واقعات کے بارے میں ایوان بالا کی مسندوں پر براجمان ”با با سائیں“ اور ان کے کارندوں کو خبردار کیا تھا۔ لیکن انہیں اس کی کیا پرواہ؟لوگ مرتے رہے اور مر رہے ہیں تو صرف ان کے سیا سی گٹھ جور کے نتیجے میں ۔

کون نہیں جانتا کہ اس سارے خونی کھیل میں آخر کونسے عناصر ملوث ہیں؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی سی۔ آئی ۔ڈی نے بیسیوں لوگوں کے قتل میں ملوث ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جن کا منظم گروہ شہر میں بغیر خوف و خطر کے کام کر رہا ہے جن کی سر پرستی پڑوسی اسلامی ملک کر رہا ہے بلکہ ماہانہ ہزاروں روپے تنخواہ اورزندگی کی تما م تر آسائشیں بھی انہیں فراہم کرتا ہے۔

اس واقعے سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ جہاں سیاسی عسکری گروہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردی کی مذموم کاروائیوں میں شامل ہیں وہاں غیر ملکی طاقتیں بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ ایسے لوگوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔کیا اپنے مفادات کو عزیز تر جانتے ہوئے سیا سی اکھاڑوں کے یہ جمہوری پہلوان اس بات سے بے خبر ہیں؟ قارئین محترم !انگریزی کے مشہور شاعر”جان ملٹن“نے بچپن کو جنتِ گمشدہ یعنی کھوئی ہوئی جنت کہا ہے ۔

بچپن کی حسین یادیں تا عمر انسان کے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں بالخصوص والدین کے ساتھ کی گئی وہ باتیں جو آدمی کو انسان بنا نے اوراس کی اخلاقی تربیت کے لئے کی گئی ہوں۔ وطن عزیز میں بے گناہوں کے گرتے ہوئے لاشوں پر بچپن کے دور میں اپنی ماں سے کیا مکالمہ مجھے یاد آگیا کہ جب ایک روز تیز آندھی اور سرخ آسمان کے ڈر اور وحشت کی وجہ سے ماں کی آغوش کا سہارا لیا اور خوف کی حالت میں پوچھا :”ماں ! یہ آسمان سرخ کیوں ہوتا ہے؟“ماں نے اپنے گلے لگاتے ہوئے کہا: بیٹا! ” آج کسی معصوم اور بے گناہ کا خون ہوا ہے“۔

لیکن جب سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھاتو روزانہ ہی موت کو اپنے گلی،محلوں اور علاقوں میں رقص کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جو روزانہ ہی کتنے معصوم لوگوں کو اپنی زد میں لیتی ہے تو سوچتا ہوں کہ تیز آندھیاں اب کیوں نہیں چلتیں، آسمان اب کیوں سرخ نہیں ہو تا۔ لیکن چند ہی لمحوں میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ اُس دور میں انسان ہوتے تھے تو ایک دوسرے کے غم اور تکلیف سے با خبر اور ہر ایک دوسرے کا دستگیر و مدد گار، جبکہ آج کے دور میں جذبات سے عاری انسان جو اپنی زندگیوں میں ایسا گُم ہوتے ہیں کہ جنہیں دوسروں کے غم اور تکالیف کا احساس ہو نا تو دور کی بات بلکہ انہیں ” انجوائے کر تے ہیں اور جس معاشرے میں یہ عادت عام ہو جائے تو قدرت ایسے انسانوں سے ناراض ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں روز معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کر دئیے جانا معمول بن جاتا ہے اور پھر ایسے حالات میں نہ تو تیز آندھیاں چلتی ہیں اور نہ آسمان سرخ ہو تا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :