عمر کے پانچ سال…!

اتوار 26 جنوری 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

ہندوستان کی کسی بھی ریاست کے مقابلے میں سب سے کم عمر کے وزیر اعلیٰ کے بطور ریاست جموں و کشمیر کی زمامِ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ اپنے دورِ اقتدار کے اختتام کے قریب تک وہ یہ نہیں کہیں گے کہ انہوں نے کیسی حکومت کی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ چھ سال پر محیط دورِ حکومت کی شام ہوتے ہوتے وہ اپنا ”رپورٹ کارڈ“عوام کے سامنے رکھتے ہوئے اُنسے آئیندہ کے لئے ووٹ چاہیں گے۔

اب جبکہ وہ 5جنوری کو اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کر چکے ہیں اُنکا اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ رپورٹ کارڈ کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے تاہم غیر جانبدار مورخوں کی جانب سے عمر عبداللہ کی کارکردگی سے متعلق لکھے گئے رپورٹ کارڈ میں ایسا کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ جس کے بل پر وہ ہل(نیشنل کانفرنس کا انتخابی نشان)کو عوام میں ان(عوام)کے نجات دہندہ کے بطور پیش کریں منوانے کی بات دور کی ہے۔

(جاری ہے)


ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے فرزند عمر عبداللہ نے،39سال کی عمر میں ،5جنوری2009کو ہندوستان کی کسی بھی ریاست کے مقابلے میں سب سے کم عمر بلکہ نوجوان وزیر اعلیٰ کے بطور جموں و کشمیر جیسی حساس ریاست کی زمامِ اقتدار سنبھالی تھی۔2008کی خونریز عوامی تحریک کے فوری بعد عمل میں آئے انتخابات کے نتیجے میں ریاست کاسیاسی منظر نامہ یوں بنا کہ کانگریس نے پی ڈی پی کے سر سے ہاتھ ہٹا کر اسے اقتدار کی نیلم پری سے جدائی کے غم میں سسک سسک کر لاغر ہوچکی نیشنل کانفرنس کے سر پر رکھا۔

اُس وقت نئی دلی کے سیاسی گلیاروں سے یہ افواہیں اُڑیں کہ کانگریس نے اسی شرط پر نیشنل کانفرنس کے ساتھ حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ ڈاکٹر فاروق کی بجائے انکے فرزند عمر عبداللہ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ ہونگے۔وزارتِ اعلیٰ سنبھالنے پر عمر عبداللہ مقابلتاََ سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ تھے حالانکہ انہیں یہ اعزازی پوزیشن دو ایک سال قبل اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے لئے خالی کرنا پڑی کہ جنہوں نے محض 38سال کی عمر میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالی۔


عمر عبداللہ کے ”نوجوان“وزیرِ اعلیٰ ہونے کا کافی چرچا کیا گیا با الخصوص ٹیلی ویژن چینلوں نے اس بات کو کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے کشمیر کے لئے کوئی بہت بڑا ”چمتکار“ہو گیا ہو کہ جس میں اس بد نصیب خطہ کے تمام مسائل کو ”چھو منتر“کر جانے کی ”شکتی“ہو۔حالانکہ جموں و کشمیر،با الخصوص وادی،کے عوام عیاں وجوہات کے لئے مین سٹریم کی سیاست سے کٹ کٹ کے رہتے آئے ہیں اور اس خطے کے مسائل کی حساسیت اور وجوہات کا ادراک رکھنے کی وجہ سے وہ کسی مقامی حکمران سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنے کے عادی نہیں ہیں لیکن جب حالیہ برسوں کے دوران Super Hitرہنے والے فلمی نمبر ”شیلا کی جوانی“کی طرح ہر جانب سے عمر عبداللہ کی ”جوانی“کو کسی ”چمتکار“کی طرح پیش کیا جانے لگا تو کشمیری عوام کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔

ظاہر ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے نوجوان وزیر اعلیٰ سے ”بڑے مسائل“سے متعلق نہ سہی چھوٹے مسائل کو لیکر بڑی اُمیدیں وابستہ کر دیں۔ ان اُمیدوں پر کھرا اُترنا،ہوسکتا ہے کہ، عمر عبداللہ کی بھی تمنارہی ہو مگر عملی دنیا میں خود نوجوان وزیر اعلیٰ کی ممکنہ تمنا پور ہو پائی ہے اور نہ ہی اُن لوگوں کی اُمیدیں کہ جو ٹیلی ویژن چینلوں کے دام میں آکر جوانی کے دیوانے ہو گئے تھے۔

اپنی سرکار کا ایک ایک سال مکمل کرنے پر عمر عبداللہ اور اُنکی پارٹی رسمِ دنیا کے لئے ریاستی عوام کے لئے شکریہ کے الفاظ دہراتی رہی ہے ۔لیکن کسی سرکار کا ایک ایک سال مکمل ہونے پر عوام اپنے حکمران کا شکریہ بجا لائیں ریاست کے پہلے نوجوان وزیرِ اعلیٰ اس روایت کے جنم کی وجہ نہیں بن پائے ہیں کہ جس سے موجودہ سیاست کی بھاگ ڈور نوجوانوں کے ہاتھ آنے کا کوئی ”اضافی فائدہ“سمجھ میں آجاتا یا اُن لوگوں کو کوئی credibilityنصیب ہوتی کہ جو عمر کی جوانی کو سیاسی غیر یقینیت کے کینسر سے تڑپ رہی ریاست جموں و کشمیر کے لئے آبِ حیات قرار دے چکے تھے۔


عمر عبداللہ ابھی ابھی اپنے چھ سال کے دورِ اقتدار کے آخری سال میں قدم رکھ چکے ہیں،حالانکہ سالِ رفتہ اُنکے لئے قدرے بہتر گذرا ہے لیکن اگر مجموعی طور اُنکے ابھی تک کے دورِ اقتدار کی بات کی جائے تو یہ کہنے میں کوئی مبالغی نہیں ہوگا کہ انہوں نے یہ دور ”اُمید و بیم“کی کیفیت میں گذارا ہے۔ایسا کئی بار ہوا کہ جب عمر عبداللہ کی سرکار کئی دنوں کی نہیں بلکہ محض کئی گھنٹوں کی مہمان معلوم ہوئی لیکن یہ اب تاریخ کا حصہ ہے کہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق،جسے اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے حکمراں نیشنل کانفرنس وقتاََ فوقتاََ متنازعہ و مشروط بتاتی ہے، کر نے والے شیخ عبداللہ کے پوتے نے حال ہی اپنے اقتدارکے پانچ سال مکمل کئے ہیں اور وہ اگلے کئی سال تک اقتدار کی کرسی پر بنے رہنے کی اُمیدیں ظاہرکر رہے ہیں۔


عمر عبداللہ کو اقتدار سنبھالے ابھی کچھ ہی مہینے ہوئے تھے کہ مئی 2009میں جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں دو خواتین کا،جو آپس میں نند بھابی تھیں،پہلے اغوا اور پھر قتل ہوا۔بعد ازاں ثابت ہوا کہ دونوں کی پہلے اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور پھر انکا قتل کر دیا گیا۔اس واقعہ کا جب فورسز پر الزام لگا تو کشمیر میں احتجاج کی ایسی آگ بھڑک اٹھی کہ جس میں وادیٴ کشمیر کئی ماہ تک جلتی رہی۔

انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنا کر سرکار نے احتجاجیوں کو تھکا دیا اور یوں کئی ماہ کے بعد صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔تاہم اگلے سال سرینگر کے پائین شہر میں ایک کمسن لڑکے کی پولس کے ٹیر گیس شل سے ہوئی بے دردانہ موت نے ایک نئی آگ بھڑکا دی اور تقریباََ پورے سال وادی میں حالات انتہائی کشیدہ رہے یہاں تک کہ زائد از سوا سو افراد،جن میں اکثریت بچوں اور نوجوانوں کی تھی،مارے گئے۔

اس دوران عمر عبداللہ کا جیسے کہیں وجود ہی نہیں تھا،جسکا نئی دلی میں ”دامنی ریپ کیس“دسمبر کو پیش آئے واقعہ کو لیکر وہاں ہوئے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف بھی کیا اور اسے اپنی غلطی بھی مانا،اور پھر صورتحال کو قابو کرنے کے لئے Damage Controlکے بطورسرکار کی بر طرفی یا وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی کی کئی جانب سے تجاویز پیش ہوئیں۔

ظاہر ہے کہ ان حالات کے رہتے ہوئے نوجوان وزیر اعلیٰ اپنی ”جوانی کا کوئی جادو“ نہ بکھیرسکے اور پھر کچھ نہ کرنے کے لئے انہوں نے مذکورہ بالا حالات کو وجوہات کے بطور پیش بھی کیا۔
سال 2011میں اگرچہ کشمیر کے حالات قدرے بہتر رہے تاہم وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ درونِ خانہ کئی پریشانیوں کا شکار رہے۔ایک طرف پائل سنگھ کے ساتھ انکی سترہ سال پُرانی شادی ٹوٹ جانے کی وجہ سے انکی خانگی زندگی میں افراتفری مچی،جسے مسٹر عبداللہ نے انتہائی کامیابی کے ساتھ ایک نجی معاملے کی طرح اپنے تک محدود رکھا اور ذرائع ابلاغ کو اس معاملے کو کُریدنے سے روکا،تو دوسری جانب اُنکی سرکاری رہائش گاہ پر اُنکے ایک سرکردہ پارٹی کارکن کی پُر اسرار ہلاکت نے انہیں پریشان رکھا۔

گویا سکیورٹی کے اعتبار سے ”پُر امن “گذرے اس سال کے دوران بھی وزیر اعلیٰ کو اتنی فرصت نہ ملی کہ وہ کوئی بڑا کارنامہ کر جاتے۔حالانکہ سال 2012کو گذشتہ دو دہائیوں میں سے پُر امن ترین سال قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ فخر محسوس کرتے رہے ہیں لیکن ”امن“کا ایک اور سال ملنے کے با وجود بھی وہ ریاست کی تعمیرو ترقی کے نام پر کوئی بڑا کارنامہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔

سالِ رفتہ(2013)بھی سکیورٹی کے اعتبار سے قدرے پُر سکون گذر گیا ہے جیسا کہ پولس اور سکیورٹی سے وابستہ دیگر اداروں نے حال ہی دعویٰ کیا ہے کہ گئے سال ملی ٹینسی کی وارداتوں میں خاصی کمی آئی ہے ۔پھر یہ بھی کہ سکیورٹی کے محاذ سے الگ عمر عبداللہ گئے سال درونِ خانہ کسی غیر معمولی پریشانی کا بھی شکار نہ رہے حالانکہ سابق فوجی چیف جنرل وی کے سنگھ نے ریاستی ممبرانِ اسمبلی کے زر خرید ہونے کا بم پھوڑ کر اس جمہوری ادارے کی چولہیں ہلا دی ہیں لیکن یہ انکشاف چونکہ سبھی ممبران پر آیا ہے لہٰذا اس سے عمر عبداللہ کو کوئی ذاتی پریشانی کا سامنا نہ رہا۔

گویا گیا سال ابھی تک کے دورِ اقتدار میں عمر عبداللہ کے لئے ،مقابلتاََ ،فراغت و فرصت کا پہلا سال گذرا ہے مگر خود عمر عبداللہ کو بھی معلوم ہے کہ اُنسے ایسا کوئی کارِ نمایاں ممکن نہیں ہو پایا ہے کہ جسے جلی حروف میں رقم کر کے وہ اپنا رپورٹ کارڈ بناتے اور اسے عوام کے سامنے پیش کر پاتے۔حالانکہ سرکار کی جانب سے کوئی وجہ تو نہیں بتائی گئی ہے لیکن شائد رپورٹ کارڈ میں کچھ درج نہ کر پانے کی ہی وجہ ہے کہ عمر عبداللہ نے اپنے چوتھے سال کی تکمیل کے مقابلے میں پانچ سال کی حکمرانی کا کوئی جشن نہیں منایا ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ عمر عبداللہ نے اپنے اقتدار کے ان پانچ برسوں کے دوران تعمیر و ترقی کا کوئی کام کیا ہی نہیں…!بلکہ کسی بھی وزیرِ اعلیٰ کی طرح ہی وہ بھی ریاست کے طول و ارض میں کئی عمارتوں ،پلوں،صحت مراکز اور اس طرح کی سہولیات کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے یا پھر اس طرح کی سہولیات کے تیار ہونے پر انکا Ribbonکاٹتے ہوئے فوٹو کھچواتے اور اپنے ووٹروں پر” احسانِ عظیم“ کرنے کا تاثر دیتے ر ہے ہیں۔

اور پھر اُنکے ڈھنڈورچی تنویر صادق،جنہیں وزیر اعلیٰ کے سیاسی معاون کی کرسی پر بیٹھنے کی موٹی تنخواہ ملتی ہے،کا تو کہنا ہے”عمر عبداللہ کی سرکار کے پانچ سال کامیاب کہانی ہے عوام اور اداروں کی حکمرانی کی“۔عمر عبداللہ کے ایک وزیر فیروز خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے”بہتر انتظامیہ کی فراہمی موجودہ سرکار کا طرہٴ امتیاز ہے“مگر سچ یہ ہے کہ عمر عبداللہ کے کسی بھی ڈھنڈورچی کے پاس عملاََ ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ جسے وہ اپنی اور اپنے باس کی دعویداری کے ثبوت کے بطور پیش کر سکتے ہوں۔


ایک نوجوان وزیرِ اعلیٰ ہوتے ہوئے نہ ہی عمر عبداللہ نے بے روزگاری کی مار جھیلتے آرہے اُن(عمر)سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے کار بیٹھیبے شمار نوجوانوں کے روزگار کا کوئی انتظام کیا ہے اور نہ ہی وہ ریاست میں کوئی صنعتی انقلاب لا پائے ہیں۔ریاست کو آج کے دور میں بھی روشنی کے لئے مطلوب بجلی دستیاب نہیں ہے اور ایسے میں صنعتوں اور کارخانوں کے ،جن کے لئے بجلی بنیادی ضرورت ہے،قیام کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

حالانکہ پانچ سال کے دوران ”حاصل کردہ اپنی فتوحات“کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کا دعویٰ ہوتا ہے”میری سرکار نے بجلی کے شعبہ کو ترجیح دی ہے اور 1000میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت والے کئی منصوبے Launchکیا جا چکے ہیں جو مستقبلِ قریب میں لوگوں کو فائدہ پہنچائیں گے“لیکن لوگوں کے لئے اس طرح کی باتیں کاغذی دعویداری سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

گذشتہ سال وزیر اعلیٰ نے جب اپنے چہار سالہ جشن کی تقریب میں یہ دعویٰ کیا تو اُنکے جلسے میں شامل رہے جنوبی کشمیر کے ایک پنچایت ممبر نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پرعالمی سہارا کو بتایاتھا”ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں صحیح ہوں اور ان منصوبوں پر کام جاری ہو لیکن مجھے اپنے گاوٴں میں بجلی دیکھے ہوئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گذرا ہے“۔مذکورہ کا کہنا ہے”پہلے تو چوبیس گھنٹوں میں پانچ چھ گھنٹے کی بجلی آتی تھی لیکن سینکڑوں گھروں پر مشتمل بستی کے لئے نصب اکیلے ٹرانسفارمر کے خراب ہو جانے کی وجہ سے ہم ڈیڑھ ماہ سے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں“۔

واضح رہے کہ سردی کے ایام میں جب وادیٴ کشمیر یخ بستہ ہواوں اور کئی کئی فٹ کی برف سے گری رہتی ہے بجلی کی سپلائی تقریباََ نو بود ہو جاتی ہے اور کئی ماہ تک وادیٴ کشمیر کے اخبارات میں بجلی کی عدم دستیابی کے خلاف ہورہے احتجاج سے متعلق خبروں کے لئے صفحہٴ اول کے کالم ہا وقف رہتے ہیں۔آج بھی جب وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ڈھنڈورچی سرکار کی جانب سے بجلی کے شعبے میں ”زبردست ترقی“کرنے کے دعویٰ کرتے ہیں توریاست کے مختلف علاقوں کے بیشتر اوقات گھپ اندھیرے میں ڈوبے رہنے سے متعلق مقامی اخبارات کی سُرخیاں اور اس صورتحال کے خلاف عوامی احتجاج کی تصاویر جیسے بزبانِ خود سرکار پر ہنس رہی ہوتی ہیں۔


اقتدار سنبھالنے سے قبل اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو معاشی طور خود کفیل زندگی کے خواب دکھا چکے عمر عبداللہ اس سمت میں بھی کوئی اقدامات کرنے سے رہ گئے ہیں۔جیسا کہ انہوں نے اپنے سر وزارتِ اعلیٰ کا تاج سجانے سے قبل کہا تھا انہوں نے بے روزگاری کی پریشانی سے نپٹنے کے اقدامات نہیں کئے ہیں بلکہ سرکار کی اپنے موجودہ ملازمین کے ساتھ مخاصمت کا عالم یہ ہے کہ چھٹے تنخواہ کمیشن کی رو سے ملازمین کے تئیں سرکار پر واجب الادا ہو چکی رقومات کی ادائیگی اور دیگر مراعات کی بحالی کے مطالبات کو لیکر ہر ماہ ملازمین کا منظم احتجاج ہوتا ہے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ سرکار کو اسکے وعدے یاد دلانے کے جُرم میں چند ہی ماہ قبل ریاست کی ملازم قیادت کو کئی کئی دن تک جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور اُن لوگوں کو ایسے شدید نوعیت کے مقدموں میں پھنسایا گیا ہے کہ انکے سامنے اپنی عافیت یا حقوق میں سے انتخاب کرنے کے محض دو optionموجود دکھائی دے رہے ہیں۔حالانکہ وزیر اعلیٰ نے اپنے دورِ اقتدار کے بیشتر حصے میں بے روزگاری کے حوالے سے کوئی خاص کام نہ کرنے کے بعد 2012میں 80ہزار سرکاری نوکریوں کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اور اب اُنکا دعویٰ ہے کہ مختلف محکموں میں کئی ہزار افراد کی بھرتی کی گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے لیکن من ہی من عمر عبداللہ کو بھی اعتراف ہوگا کہ ریاست میں بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا یا کیا جا سکا ہے کہ جس سے صورتحال کو یکسر بدل دینا ممکن ہو جاتا۔

پھر مزے کی بات یہ بھی ہے کہ عمر عبداللہ نے ایک نئی ریکروٹمنٹ پالیسی متعارف کی ہے جسکے تحت جموں و کشمیر سرکار میں نوکری حاصل کرنے والے امیدواروں کو پہلے پانچ سال تک فقط بنیادی تنخواہ کا پچاس فیصد،بغیر کسی مراعات کے،ملے گا اور پھر پانچ سال کے بعد سے انہیں پوری تنخواہ دی جانے لگے گی لیکن اِن ملازمین کو کوئی پنشن بھی نہیں ملا کرے گی جیسا کہ موجودہ سرکاری ملازمین کو نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد تاحیات ملا کرتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ماننا ہے کہ یہ انہیں بلیک میل کرنے اور انکی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے برابر ہے۔
نوجوان ہونے کی وجہ سے عمر عبداللہ سے یہ اُمید بھی کی جارہی تھی کہ وہ رشوت خوری کی بدعت کا خاتمہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو رشوت خور ریاستوں کی فہرست سے باہر نہ سہی لیکن فہرست کے آخرپر ضرور لے جائیں گے لیکن اس حوالے سے انہوں نے دو ایک سال قبل ہی نئی دلی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران یہ کہکر سب کو حیران کر دیاتھا کہ” مخلوط سرکار میں رشوت کا خاتمہ ناممکن ہے“۔

یعنی بہ الفاظِ دیگر انہوں نے اپنے یہاں تیزی سے پھیل رہی رشوت خوری کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اُن لوگوں کو دوبارہ سوچنے کی ترغیب دی کہ جورشوت سے پاک جموں و کشمیر کا خواب دیکھتے آرہے ہیں۔واضح رہے کہ عمر عبداللہ کے کئی کابینہ ساتھیوں کے خلاف رشوت خوری کے کئی معاملے ”زیرِ تفتیش“ہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں رشوت خوری کا عالم یہ ہے کہ جیسے اسکے جائز ہونے کا مدت پہلے سرکیولر جاری ہو چکا ہو۔

حالانکہ اس حوالے سے ریاست میں ویجی لنس کمیشن جیسے اداروں کے قیام کوسرکار کے رشوت مخالف عزائم کے بطور پیش کیا جا رہا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ رشوت کے گھوڑے خوب دوڑ رہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار کا ایک منظورِ نظر افسر ،جسے ریٹائر ہونے کے بعد پھر سے نوکری پر رکھ کے ایک اعلیٰ ترین عہدے پر بٹھا دیا گیا تھا،مشتاق پیر حال ہی کروڑوں روپے کے عوض میڈیکل انٹرنس کے پرچے فروخت کرکے ”مُنا بھائیوں“کو ڈاکٹر بنانے کے جرم میں پکڑا گیا ہے۔

حالانکہ سرکار اس گرفتاری کو اپنی” ایمانداری “کے ثبوت کے بطور پیش کرنے کے فراق میں ہے لیکن اس بات پر بے شرمی سے چُپ ہے کہ مختلف محکموں میں چور ثابت ہوتے رہنے کے بعد بھی اس شخص کو نوکری سے سبکدوش ہونے کے باوجود بھی کس طرح اعلیٰ اختیار والی دوسری نوکری دی گئی تھی اور اسکے خلاف ہونے والی کئی تحقیقاتوں کی مثلیں کہاں غائب ہوتی رہی ہیں۔


سرکاری مشینری کی جانب سے لوگوں کو یہ ہضم کرنے پر ایک طرح سے مجبور کیا جا رہا ہے کہ موجودہ سرکار نے اُنہیں ”حقِ اطلاعات“اور ”ضمانتِ خدمات“جیسے ہتھیاروں سے لیس کر کے حقوق پانے اور ناانصافیوں کو روکنے کے قابل بنا دیا ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ ان Actsکے نفاذ میں ریاستی سرکار کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ سب مرکز کا کیا دھرا ہے جو جموں و کشمیر کے لئے خاص نہیں بلکہ سبھی ریاستوں کے لئے نا فذ العمل ہے۔

عمر عبداللہ کی کامیابیوں میں البتہ یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر درج کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے قریب تیس سال بعد ریاست میں 2011میں پنچایتی انتخابات منعقد کروائے۔اس انتخابی عمل میں لوگوں کی بھرپور شرکت کے لئے اکیلے عمر عبداللہ کو کریڈٹ تو نہیں دیا جا سکتا ہے لیکن انتخابات کے انعقاد کا انہیں کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔البتہ جس طرح گذشتہ سال قریب چالیس ہزار منتخب پنچایت ممبران انہیں اختیارات نہ دئے جانے کی شکایات کو لیکر کبھی دھرنا پر بیٹھے اور کبھی مستعفی ہونے کی دھمکیاں دیتے رہے اُس سے وزیرِ اعلیٰ کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں پر سوال اٹھتا ہے۔

عمر عبداللہ کسی بھی طرح ریاستی عوام کی اکثریت کا یہ تاثر زائل کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں کہ ریاست میں انتخابات کا مقصد جمہوری اقدار کی بالا دستی کی بجائے محض خانہ پُری ہے ۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے ،عمر عبداللہ خوش قسمت وزیرِ اعلیٰ کہلائے جاسکتے ہیں کہ انکے دورِ اقتدار میں جموں و کشمیر نے کئی تبدیلیاں دیکھیں۔حالانکہ اس بات میں اُنکی کوئی کارستانی نہیں ہے بلکہ یہ ”بدلی ہوئی دنیا“کے اثرات ہیں کہ جموں و کشمیر میں حالات قدرے پُرسکون ہیں اور ملی ٹینسی کا دبدبہ ختم ہو رہا ہے ۔

ملی ٹینسی کے دبدبہ کے خاتمے کی صورت میں بنے حالات کے طفیل دو ایک سال کے دوران لاکھوں سیاح ریاست کی سیاحت پر آئے جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ اس صورتحال کو مثبت انداز میں Exploitکر سکتے تھے جو مگر وہ نہیں کر سکے۔چناچہ ملی ٹینسی کازور بہت حد تک توٹ چکا ہے لیکن وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ علیٰحدگی پسند سیاسی قیادت کو آمادہٴ مذاکرات کر سکے اور نہ ہی وہ اس خیمے کو کوئی Political Spaceفراہم کرنے میں ہی کامیاب رہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ نے سید علی شاہ گیلانی کو انکے گھر میں نظربند رکھنے کو ایک بڑے ہتھیار کی طرح آزمایا ہے اور جیسا کہ مسٹر گیلانی کے ذرائع کا کہنا ہے بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر گذشتہ سال بیشتر اوقات خانہ نظر بند رہے۔سید گیلانی کے ”تجرباتی بنیادوں پر“چند دن کے لئے رہا کئے جانے پر جو لوگوں کا سیلاب اُنکے پیچھے پیچھے چلنے لگا اُس سے بھی یہ اشتہار ملا ہے کہ عمر عبداللہ حفاظتی پہروں اور سلاخوں کو اپنے حق میں خوب استعمال کرتے رہے ہیں لیکن کشمیریوں کے Mindsetکو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔

ہونگے بھی کیسے کہ جب وزیر اعلیٰ اپنے دورِ اقتدار کی شام ہوتے ہوتے بھی کشمیر کے حوالے سے کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی وجہ نہیں بن پائے ہیں۔ ریاست کی قدرے پُر امن صورتحال وزیر اعلیٰ کی کاوشوں کا نتیجہ نہ بھی ہو لیکن اس صورتحال کو بہتر طور پیش کر کے وہ مرکزی سرکار کو افسپا جیسے قوانین کی تنسیخ پر آمادہ کر کے اپنے لئے ایک زیرک سیاسی لیڈر کی پہچان بنوا سکتے تھے جو انکے لئے مگر ممکن نہیں ہو پایا۔

ایک تبصرہ نگار کا کہنا ہے”حالات میں بدلاوٴ تو آیا ہے اور یہ عمر صاحب کو بھی معلوم ہے کہ ایسا نہ انکے چاہنے سے نہیں ہوا ہے لیکن وہ چاہتے تو لوگوں کو اس بدلاوٴ کا معاوضہ ضرور دلوا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے،بے روزگاری کا بھی اور رشوت خوری و اقربا پر وری کا بھی“۔حزبِ اختلاف کی لیڈر محبوبہ مفتی سے پوچھئے تو وہ عمر عبداللہ کے اب تک کے دورِ اقتدار کو ناکام قرار دیتے ہوئے نوجوان وزیر اعلیٰ پر کچھ اچھا کرنے کی بجائے Institutionsکو کمزور کر دینے کا الزام لگاتی ہیں۔

انسانی حقوق کے پاسدار ایک معروف ادارہ” جموں و کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹیز“سے وابستہ خرم پرویز کی مانیں تو وزیر اعلیٰ کی سب سے بڑی ناکامی بلکہ جرم یہ ہے کہ وہ لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے ہیں کہ یہاں طاقت کا اصل سر چشمہ کون ہے کیونکہ خرم کے نزدیک وزیر اعلیٰ کمزور اور بے اختیار ثابت ہوئے ہیں“۔وہ کہتے ہیں کہ عمر سرکار میں حقوقِ انسانی کی پامالی کی حالت یہ ہے کہ جہاں پہلے لوگوں کو ملی ٹینسی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا تھا وہیں اس سرکار نے محض سیاسی نظریات کی بنیاد پر 15000گرفتاریاں عمل میں لائی ہیں۔

وہ کہتے ہیں ”یہ تو شرم کی بات ہے کہ سڑک پانی بجلی جیسی چیزوں کے لئے ووٹ مانگنے والی سرکار لوگوں کو صاف پانی کا ایک گلاس فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوئی ہیں اور آبی وسائل سے مالا مال ریاست کے عوام کو گھروں کو روشن کرنے کے لئے بھی بجلی دستیاب نہیں ہے “۔
ایک طرف مورخین اور غیر جانبدار مبصرین سرکار کا رپورٹ کارڈ لکھتے ہوئے سرکار کے لئے یوں شرمندہ ہو رہے ہوں اور سرکار کو ذمہ داری کے علاوہ شرم سے بھی عاری قرار دے رہے ہوں تو دوسری طرف سرکار اپنے تیار کردہ کونسے رپورٹ کارڈ کی بنیاد پر اگلے انتخابات لڑنے کے منصوبے بنا رہی ہے،یہ سوال عمر سرکار کا ایک ایک سال گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید پُر اسرار بھی اور دلچسپ بھی ہوتا جا رہا ہے تاہم دلچسپ اس سوال کا جواب آنے میں بس چند ماہ کی دیر ہے…!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :