پاکستان محفوظ کب تھا ؟

بدھ 22 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

پاکستان کے وزیر داخلہ چو ہدری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے نائین الیون کے بعد دنیا محفوط اور پاکستان غیر محفوظ ہو گیا۔ قومی اخبارات میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ پولیس کو حکومت کی بجائے ریاست کا وفادارہونا چاہئے، وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو گئی۔وہ پولیس کی ایک تقریب میں خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد پاکستان کی قربانیوں کو عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔اور چھبیس ہزار پاکستانیوں نے اپنی جان نذرانے ابھی تک دیئے ہیں۔ پاکستان کا نائن الیون کے واقعہ سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن پاکستان آج بھی جل رہا ہے۔ حکومت وقت کے ترجمان اور ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کی طرف سے یہ بیا ن عالمی برادری سے شکوہ بھی تھا، اور پرویز مشرف کے خلاف بیان بھی،کیونکہ انہی کے دور میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تھا۔

(جاری ہے)

لہذا وہ ابھی بھی تمام موجودہ مسائل کی جڑ پرویز مشرف کو ہی خیال کرتے ہیں ؛گویا ابھی بھی وقت حاضر کے سیاست دان ذاتی انتقام اور سیاسی تنگ نظری کے تنگ کمرے سے باہر نہیں نکلے اور نہ نکلنا چا ہتے ہیں، اور نہ ہی اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں جو تاریخ میں موجود اور محفوظ ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔بقول شاعر کے کہ۔۔۔۔
جیسے میں کہہ نہیں سکتا ، جسے آپ سن نہیں سکتے
وہی باتیں ہیں کہنے کی، وہی باتیں ہیں سننے کی
آپ کی اپنی سیاسی د یانت اور بصیرت کا یہ حال ہے کہ پرویز مشرف کی مخالفت آپ اس لئے کر رہے ہیں کہ اس نے آپ کی حکومت کا تختہ الٹا تھا، نہ کی اس وجہ سے کہ وہ فوجی تھے۔

،پاکستان کے متعلق آپ کے خیالات کی قدر کرتے ہیں لیکن جہاں تک تعلق آپ کی اس بات کا ہے کہ پاکستان نائن الیون کے بعد غیر محفوظ ہوا ہے اس سے اختلاف ہے اور پاکستان کب سے غیر محفوظ ہوا ہے اس بات اور تاریخ سے آپ بخوبی واقف ہیں لیکن اظہار نہیں کر سکتے۔کیونکہ جس دور میں پاکستان کے موجودہ مسائل اور دہشت گردی کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں وہ دور آ پ کی موجودہ سیاسی قیادت کی سیاسی پیدائش کا دور تھا ایک جرنیل کے بطن سے جنم لینے والے دوسرے جرنیل کی مخالفت صرف ذاتی بنیاد پر ہی کر سکتے ہیں۔

تالی کبھی بھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔لیکن ہمارا جنوبی ایشیا کا واحد اسلامی ملک ہے جہاں تالی دو طرح کی بجتی رہی ہے۔کبھی تالی ایسے بجتی تھی کی ایک ہاتھ سیاسی اور دوسرا فوجی۔دونوں مل کر خوب تالیاں بجاتے رہے۔کبھی بھی دونوں فوجی ہاتھ نہیں رہے،انکی تالی بجنے میں ہمیشہ دوسرا ہاتھ سیاسی ہو تا رہا ہے۔اور دوسری بار تالی جب بجی تو سیاسی ہاتھوں سے۔

۔ ستر ہویں ترمیم ہو یااٹھارویں یا پھر انیسویں ترمیم سب کچھ آپس کے مفادات کا تحفظ تھا لیکن قومی مفاد اور بقاء کے لئے کالاباغ ڈیم کے لئے کوئی ترمیم یا اتفاق رائے نہ ہوسکی؟؟؟ جرنل ضیاء الحق کو کس نے کہا تھا کہ وہ دو سانڈوں کی لڑائی میں حصہ دار بنیں،روس نے افغا نستان پر حملہ کیاتھا پاکستان پر تو نہیں؟روس کے ٹکرے ہونے سے دنیا میں طاقت کا توازن خراب ہو گیا تھا۔

اور اس زمانہ کے تمام مسلح گروپ آج پاکستان کو غیر محفوظ کر ر ہے ہیں۔لہذا نائن الیون نہیں بلکہ ضیاء ا لحق کے غلط فیصلہ کا خمیازہ ملک و قوم بھگت رہی ہے،حقیقت میں ضیاء ا لحق کے فیصلے سے پاکستان غیر محفوظ ہوا۔اس کے بعد دوسری غلطی کراچی کے حوالے سے کی،پی پی پی کو شکست دینے کی خاطر ایم کیو ایم کا قیام، آج کراچی کرچی کرچی ہو رہا ہے، ملکی قوانین میں ردبدل بھی اسی دور میں ہوئے تھے ۔

ہر دور میں ایک جملہ ہر ذمہ دار سیاسی،فوجی اور دیگر عہدیداروں سے سنا جا رہا ہے کہ۔۔پاکستان نازک دور سے گذر رہا ہے۔نجانے یہ منحوس نازک دور کب ختم ہوگا؟؟؟؟ کون کرے گا؟؟سابق و زیر اعظم کا لیبل بہت سے سیاست دانوں نے اپنے نام کے ساتھ لگوایا لیکن اس کا حق کسی نے بھی ادا نہیں کیا۔
جناب وزیر داخلہ صاحب نے اپنے بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پولیس کو ریاست کا وفا دار ہونا چاہے۔

درست ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ وفادار ہے کون کون ہے؟ کیا سیاسی اور مذہبی جماعتیں وفادار ہیں؟ کیا سیاست دانوں نے وفاداری کا مظاہرہ کیا ہے کبھی؟ ایک دوسرے پر سیکورٹی رسک کے ہی الزامات قوم سنتی آئی ہے۔ وفا داری کا کوئی نہ کوئی پیمانہ تو ہونا چاہئے۔صرف پولیس ہی ریاست کی وفادار کیوں ہونی چاہئے،پولیس تو ہر سیاسی دور میں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے کنٹرول میں رہی ہے،پولیس کا تو بیڑہ غرق ہیسیاست دانوں اور جماعتوں نے کیا ہے اپنی مرضی کے ایس ایچ او تک جماعتیں اپنی پسند کے لگواتی ہیں۔

کیا وہ جماعتیں جو مذہب اور دین کی بات کرتی ہیں کیا ان کو بھی بتانا پڑے کا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہوتا ہے۔ا ن کی وفاداری اور انکے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ماضی میں اس بات کا اعتراف سابق فوجی سر براہان کرتے رہیں کہ پاکستان کو بیرون نہیں بلکہ اندرونی طور پر زیادہ خطرات لاحق ہیں،اور سیاسی قیادتیں بھی بار بار کہتی رہی ہیں،وہ اندرونی خطرات کیا اور کن سے ہیں؟اس طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوشش کی ۔

وہ قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعتیں ہیں جو موجودہ نظام میں طاقت ور ہونے کے بعد اب اپنے مذموم ایجنڈا کی تکمیل میں مصروف ہیں عدم ا ستحکام ان کا واحد ایجنڈا ہے۔دہشت گردوں کو پناہ دینا اور ان کی کاروائیوں کی مزمت نہ کرنا حقیقت میں پاکستان کی مخالفت ہے۔سب کچھ جانتے ہوئے بھی ماضی اور حال کی حکومتوں نے ان جماعتوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، ماضی میں جو کچھ بویا گیا تھا وہی فصل اب کاٹی جا رہی ہے۔پاکستان کو اگر دل سے آپ محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تمام جماعتوں، گروپوں سے نجات کرنا حاصل ہو گی اور اندرونی طورپر دہشت گردی کے بیج بونے اور ان کی آبیاری کاسلسلہ بند کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :