کیا ہم نے میلاد مصطفی ﷺ کاحق ادا کیا؟

ہفتہ 18 جنوری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

آمنہ کے لال کے آنے کی خوشی منانا ایک ایسی سعادت ہے جسے حاصل کرنا ہر کلمہ گو کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا میلاد اس دفعہ بھی پوری مسلم امہ اور پاکستانی قوم نے منایا۔عمارتوں پر چراغاں کیا گیا۔ گلی کوچے برقی قمقوں سے سجائے گئے۔ منوں کے حساب سے میٹھے پکوان تیار کیے گئے۔ پانی کی سبیلیں جا بجا نظر آئیں۔ یقینا خوشی ہونی بھی چاہیے ۔کیوں کہ یہ کسی عام شخصیت کا میلاد تو ہے نہیں یہ دن تو وجہ ء تخلیق کائنات سے منسوب ہے۔ اور مجھے تو اس دن کے حوالے سے ایک شعر شدت سے یاد آتا ہے کہ۔۔
منسوب میرے شاہ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے جو روز ہو گیا
ممتاز کائنات میں وہ روز ہو گیا
اور کیوں نہ ہو کہ اس دن کی نسبت اس ہستی سے ہے جو کل کائنات کے لیے رحمت بن کر آئے۔

(جاری ہے)

جن کی سیرت پر عمل کو جنت کی ضمانت قرار دے دیا گیا۔اور ہم کس باغ کی مولی ہیں جب اللہ عزو جل نے اپنے حبیب صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پر درودو سلام کی ذمہ داری خود اٹھا لی۔ اللہ اکبر۔ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے تو خود اس ہستی پر درود و سلام بھیجتے ہیں جس کا وجود اللہ عزوجل نے جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بنا کر بھیجا۔ مجسم نور۔
لیکن اپنے آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منانے میں بھی ہم ایسی کوتاہیاں کرتے ہیں جو ہماری عاقبت سنوارنے کے بجائے ہمیں قیامت کے روز اپنے آقا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شرمندہ کرنا کا باعث بن سکتی ہیں۔آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم تو دنیا سے پردہ پوشی کرتے وقت بھی اپنی امت کو ہی یاد کرتے رہے۔ لیکن امتی کا بھی فرض تو بنتا ہے کہ اپنے آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا امتی ہونے کا حق ادا کرے۔
میلاد النبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے دن میں بھی نعت و درود کی محافل میں شامل ہوا۔ اور میلاد کے جلوس میں بھی شامل ہوا۔ لیکن کچھ ایسے واقعات نظر سے گزرے جو کسی بھی طرح اس دن کی مناسبت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پر جب طائف والوں نے پتھروں کی برسات کر دی تو آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا مبارک جوتا تک لہو سے بھر گیا۔ الامان ۔ رب کعبہ عزو جل کو اپنے حبیب صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پر سنگ باری دیکھ کر جلال آ گیا ۔ حکم ہوا کہ آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کہیں تو پہاڑ طائف والوں پر الٹ دیا جائے۔ مجسم رحمت آقا صلی اللہ وعلیہ و آلہ وسلم نے صبرو برداشت کا نمونہ رہتی دنیا تک قائم کرتے ہوئے صرف طائف والوں کی ہدایت کی دعا کی ۔ صبر و برداشت کی اس عملی مثال کو ہم بھلا بیٹھے اور آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے میلاد کے دن بھی لڑائی جھگڑا نہ چھوڑا۔ ایک جگہ ہجوم دیکھا تو پتا چلا کہ جلوس کے شرکاء آپس میں کسی معمولی سی بات پر گھتم گتھا ہو گئے ہیں۔ اور افسوس کا مقام تو یہ کہ جن لوگوں کی زبان پر کچھ دیر پہلے نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کے نعرے تھے۔ انہی زبانوں پر گالم گلوچ تھی۔ اس منظر پر افسوس کرتے ہوئے جب کچھ آگے بڑھاتو صورت حال مزید ابتر تھی۔ دو گروہ باہم دست و گریباں تھے۔ چند لوگ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ جنہیں ہسپتال شفٹ کر دیا گیا۔ وجہ ء یہ تھی کہ میلاد کے جلوس میں موجود ڈرائیور حضرات میں کسی بات پر تلخ کلامی ہو گئی۔
کچھ منچلے شاید اس دن کے فلسفے سے ہی آگاہ نہیں تھے۔ ان کے نزدیک نعوذ باللہ یہ دن بھی عام چھٹی کا دن اور تفریح کے لیے تھا۔ ان کے سروں پر تو گنبد خضراء کی مناسبت سے سبز رنگ جھنڈے بندھے تھے۔ لیکن چھٹی کے باعث انہیں کھلی اور کشادہ سڑک ملی تو انہیں اور کیا چاہیے تھا۔ ویلنگ کے لیے بہترین موقع تھا۔ اس موقع سے فائدہ تو اٹھایا گیا لیکن اس فائدہ اٹھانے میں ایک جوان اپنی ٹانگ اور بازو تڑوا بیٹھا۔ اور اطلاعات یہ ہیں کہ اسے گردن پر 16ٹانکے لگے اور ابھی تک وہ ہوش میں نہیں ہے۔ خدا عزو جل سے دعا ہے کہ اسے صحت سے نوازے ۔
منوں وزنی کیک کی تیاری کی خبریں تو آپ نے یقینا الیکٹرانک میڈیا پر دیکھی ہوں گی۔ ایک جگہ پر کیک ابھی سجایا ہی گیا تھا کہ پتا نہیں کس نے شرارت کی اور سب کیک پر ٹوٹ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر دل بوجھل ہو گیا کہ ہم بجائے ثواب کمانے کے کہیں گناہ تو نہیں سمیٹ رہے؟ایک جگہ محفل نعت صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا آنکھوں دیکھا حال یہ تھا کہ تقریب کے اختتام پر وہ لوگ جو کچھ دیر پہلے نعت رسول مقبول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سن کر آنکھیں بند کیے جھوم رہے تھے۔ وہ چاول کی ایک پلیٹ کے لیے کسی کی قمیض کھینچ رہے تھے تو کسی کو بازو سے پکڑ کر دھکیل رہے تھے۔ کوئی پلیٹ چھن جانے پر دوسرے کو گالیوں سے نواز رہا تھا تو کوئی غصے میں بھرا منتظم کو القابات سے نواز رہا تھا۔ تقریب کے منتظم کے مطابق نیاز کی کوئی کمی نہیں تھی۔ کمی تھی تو صرف لوگوں میں صبر و برداشت کی۔
کیا ہم گلیاں و بازار سجا کرسمجھتے ہیں کہ آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا حق اد ا ہو گیا؟ آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کا یقین تو مجھے بھی ہر کلمہ گو کی طرح ہے۔ لیکن کیا آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے میلاد کے دن ہی جس بد نظمی کا مظاہرہ ہم نے کیا اس سے ہم اپنی عاقبت کے لیے مشکلات تو پیدا نہیں کر رہے؟ ہمارے آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے تو پتھر برسانے والوں کو بھی دعا دی۔ کوڑا پھینکا گیا تو آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے کوڑا پھینکنے والی کی غیر موجودگی کو بھی محسوس کیا اور اس کے لیے رحمت بنے۔ جب کفار نے آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کو جادوگر مشہور کر دیا تو اس خوف سے شہر چھوڑنے والی بڑھیا کے سامان کے لیے اپنے مبارک کندھے پیش کیے۔ تو پھر ہم کیوں یہ سب بھلا بیٹھے ہیں؟اگر قارئین کو یاد ہو تو یوم عشق مصطفی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پر بھی ہم نے کہیں دکانوں کو نذر آتش کیا تھا۔ بہت سی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا کہ ہم خود کو سنوار لیں۔ اللہ سے اس کے حبیب صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے وسیلے سے معافی مانگیں۔کیوں کہ وہ بہت رحمن ہے توبہ و معافی کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتا۔ ہم کیوں اپنے لیے خود گمراہی کا راستہ چن رہے ہیں۔ جو ہمیں تباہی و بربادی کی طرف لے جائے گا۔ ہمیں خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم آقائے دو جہاں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی سیرت و اخلاق کو عملی طور پر اپنائیں گے۔ آج اگر ہم مصمم ارادہ کر لیں کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ و علیہ و آ لہ وسلم نے جس عملی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا اسے ہم بھی اپنی زندگیوں میں شامل کریں گے تو یہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :