ہمیں یہ آرٹ سیکھنا چاہیے!

جمعرات 16 جنوری 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 2014کی دوسری صبح تھی ۔موسم انتہائی سرد تھا اور پورا شہر دھند کی لپیٹ میں تھا ۔میں 2014کی نئی قراردادیں ترتیب دے رہا تھا اور اس کے لیے مجھے کسی بابے کی تلاش تھی ۔میں عموما بابوں کو نہیں مانتا لیکن اس سال 2013کا دسمبر کچھ ایسا اذیت ناک ثابت ہوا کہ مجھے بابوں پر یقین ہو نے لگا ۔انسانوں کی معلوم تاریخ میں دسمبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،دنیا کے ہر ملک میں دسمبر کو ظالم ،دردناک اور ہجر و وصال کا استعارہ سمجھا جا تا ہے ۔ہمارے مشرقی شاعروں نے دسمبر کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے اور آج دسمبر دنیا بھر میں اداسی ،تنہائی ،مایوسی اور پریشانی کی تصویر بن گیا ہے ۔ نئے سال کے شروع میں ہر سمجھدار انسان اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

انسان خطا کاپتلا ہے اور بار بار وہی غلطیاں کر بیٹھتا ہے لیکن اگر ہم اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تو بہت ساری غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے ۔۔اگر ہم نئے سال کے شروع میں گزرے ہو ئے سال کو سامنے رکھیں ،اس میں کی جانے والی غلطیوں ،کو تاہیوں اور ناکامیوں کی فہرست بنائیں اور ان کا تجزیہ کریں تو آئندہ ہم کا فی حد تک اپنی غلطیوں کو درست اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں ۔زندگی گزارنے اور جینے میں بڑا فرق ہے ،ہم رو دھو کے زندگی گزار تو لیتے ہیں لیکن ہم زندگی کو ہنسی خوشی جی نہیں پاتے ۔ہم میں سے اسی فیصد لوگ زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ہمارے جو بیس میں سے آٹھ گھنٹے زندگی کو کو ستے ،برا بھلا کہتے اور زندگی سے جان چھڑاتے ہو ئے گزر جاتے ہیں۔ حالانکہ زندگی ایک نعمت ہے اور نعمت کبھی زحمت نہیں ہو تی ۔فرق صرف یہ ہے ہم زندگی گزارنے کے آرٹ سے ناواقف ہیں اور جب تک ہم یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے زندگی ہما رے گلے کا طوق بن جا تی ہے ۔آپ ہر سال کے شروع میں اپنے مستقبل کے لیے نئی قراردادیں پیش کریں ،ماضی کی غلطیوں پر اپنے دل سے سوری کہیں اور آئندہ زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کو جینے کا عزم کر لیں ۔آپ آئندہ کے لیے ایک پلان ترتیب دیں اور اور پو را سال اس پلان کے مطابق زندگی گزاریں ۔کا میابی کے لیے 75فیصد نمبر مینجمنٹ اور ارادے کے ہو تے ہیں ،اگر آپ نے اچھی مینجمنٹ کے ساتھ اپنا ہو م ورک مکمل کر لیا اوراس ہوم ورک پر عمل کرنے کاپختہ ارادہ کر لیا توآپ نے 75فیصد کامیابی حاصل کرلی ۔
صبح کے دس بج چکے تھے لیکن دھند اور سورج کے درمیان ابھی تک کشمکش جا ری تھی ۔میں شہرکی مرکزی شاہراہ سے ہو تا ہوا شہر کے ایک مضافاتی گاوٴں میں پہنچ گیا ،مجھے بابا جی کا صحیح ایڈریس معلوم نہیں تھا میں گاوٴں کے لوگوں سے پو چھتا ہوا بابا جی کی خانقاہ پر پہنچ گیا ۔مجھے یہ خانقاہ تھوڑی عجیب سی لگی ،کو ئی قبر نہ مزار ،کو ئی بھنگی نہ چرسی ،کو ئی قطار نہ لنگر کے لیے ہا تھا پائی،کو ئی نذر نہ نذرانہ اور نہ کسی غیر محرم کا وجو د۔ مجھے ایک لمحے کے لیے خوشی سی ہو ئی جیسے میں کسی اچھی جگہ پر پہنچ گیا ہوں ۔ایک چھوٹی سی مسجد ،مسجد سے متصل وضو خانہ ،ایک طر ف قرآن پا ک ترتیب سے رکھے ہوئے اور مسجد میں بیٹھے کچھ لو گ ذکر و فکر میں مشغول ۔میں نے ایک صاحب سے بابا جی کے متعلق پو چھا اس نے انگلی کے اشارے سے بتا یا بابا جی سامنے چاشت کی نما ز پڑھ رہے ہیں ،میں ایک طر ف ہٹ کر ان کا انتظار کرنے لگا ،باباجی نے سلا م پھیرا ،فارغ ہو ئے اور مجھے اپنے پاس بلا لیا ۔رسمی حال احوال کے بعد میں نے عرض کیا ”با با جی میں نئے سال کی قراردادیں پا س کر رہا ہوں اور اس کے لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،میں چاہتا ہوں میں عبادات کی بجائے اخلا قیات اور معاملا ت میں آپ سے راہنمائی لوں “بابا جی نے گہری نظروں سے میری طرف گھورا اور بولے ”تم نیا سال کس طرح گزارنا چاہتے ہو “میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ”میں چاہتا ہوں 2014میرے لیے 2013سے ذیادہ خوش کن اور کامیابیوں اور کا مرانیوں کا سا ل ثا بت ہو اور میں اس سال خود کو کامیاب لو گوں کی صف میں دیکھنا چاہتا ہوں “بابا جی نے گہری سانس لی اور بولنا شروع کیا ”تم اپنے اندر چیزوں کو کھونے کا حوصلہ پیدا کر لو تم زندگی میں کبھی پریشان نہیں رہو گے۔جس طرح ہم کامیابیوں کے لیے تیار رہتے ہیں اسی طرح ہمیں دکھوں ،غموں اور ناکامیوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے ۔ہمارے اندر چیزوں کو کھونے کا حوصلہ بھی ہو نا چاہئے اور جس انسان نے چیزوں کو کھونے کا یہ آرٹ سیکھ لیا اس نے زندگی کی حقیقت کو پا لیا “مجھے بابا جی سے ان فلسفیانہ موشگافیوں کی توقع نہیں تھی ،میں سراپا سوال بنا بیٹھا تھا ،باباجی نے میری کیفیت کو جان لیا اور اس فلسفے کی گرہیں کھولنا شروع کیں ”دیکھو! ہم اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے کھو جانے سے ناراض ہو جا تے ہیں ،غصے میں آجا تے ہیں اور یہی غصہ بعد میں ہماری پریشانیوں کا سبب بن جاتا ہے ۔دنیا کے اسی فیصد مسائل غصے سے شروع ہو تے ہیں اور غصے پر آکر ختم ہو جاتے ہیں ۔اگر ہم سے کو ئی کتاب گم ہو جائے ،کو ئی قیمتی قلم کھو جائے یا گاڑی ،الماری یا لاک کی چابیاں گم ہو جائیں ہم فورا پریشان ہو جا تے ہیں حالانکہ ہم نے یہ چیزیں خود ہی کہیں رکھی ہو تی ہیں اور ہم بھول گئے ہوتے ہیں ۔ہمیں کو ئی کتاب نہ ملے ،موبائل کا چارجر گم ہو جائے ،ضرورت کے وقت کمپیوٹر کا ماوٴس نہ ملے ،آفس جانے سے قبل شوز گم ہو جائیں ،کالج ،یونیورسٹی جا نے سے پہلے ہمارا بیگ نہ ملے ،مسجد جانے سے قبل ہماری ٹوپی نہ ملے ،میٹنگ یا کانفرنس پرجاتے ہوئے ہماری جرابیں گم ہو جائیں ،سیر وتفریح پر جا نے سے قبل ہم اپنا کیمرا ساتھ لا نا بھول جائیں اوردفتر جا تے ہو ئے اپنا مو بائل گھر بھول آئیں تو ہم فورا جذباتی ہو جا تے ہیں ،غصے سے ہماری رگیں پھولنے لگتی ہیں اور ہمارے سامنے بیوی ،بھا ئی ،بہن اور دوست کو ئی بھی ہو ہم بادل کی طرح اس پر برسنے لگتے ہیں ۔حالانکہ یہ چیزیں یہیں کہیں ہو تی ہیں اور گھنٹے دو گھنٹے یا ایک دو دن بعد خود بخود مل جاتی ہیں ۔دراصل یہ قدرت کی طرف سے ہماری قوت برداشت کا امتحان ہو تا ہے اور ہم میں سے ننا نوے فیصد انسان اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ہمیں چیزوں کو کھونے کا یہ آرٹ سیکھنا چاہے اور جب تک ہم یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے ہماری زندگی جذبات کی کمزور بنیادوں پر کھڑی رہتی ہے اور جیسے ہی ان جذبات کو حدت ملتی ہے یہ دھڑام سے نیچے گر تی ہے اور کانچ کے کھلونے کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے “بابا جی ذرا دیر کے لیے رکے اور گو یا ہوئے ”ہمیں چیزوں کو کھونے کے ساتھ پرانی یا دوں ،بیتے ہوئے پل اور ماضی کے خوشگوار لمحات کو بھی کھو دینا چاہیے ۔تقدیر ماضی کے حسین جزیروں سے کبھی کسی کو خوشیاں مستعار نہیں دیتی اور جو انسان ماضی سے خوشیوں کی بھیک مانگنے کا عادی ہو حال اور مستقبل کبھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ہمیں اپنے ماضی کو بھول کر اپنے مستقبل کو ماضی سے ذیا دہ یادگار اور شاندار بنا نا چاہئے اور جب تک ہم یہ آرٹ نہیں سیکھ لیتے ہم صحرامیں بھٹکنے والے مسافر کی طرح دائروں میں سفر کر تے رہتے ہیں اور ہمیں اپنی زندگی عذاب دکھا ئی دینے لگتی ہے “میں نے موقعہ پا کر عرض کیا ”بابا جی ہماری زندگی میں کچھ لو گ ایسے آتے ہیں جنہیں ہم کبھی کھو نا نہیں چاہتے اور ہمیں انہیں کھونے کے خیال سے بھی ہمیں ڈر لگنے لگتا ہے “بابا جی نے بلا جھجک عرض کیا ”دراصل ہمیں ایسے لو گوں سے عشق ہو جا تا ہے اور ہم انہیں اپنی زندگی سے بھی ذیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں “میں نے اگلا سوا ل داغ دیا ”بابا جی عشق کیوں ہو تا ہے “اس سوال کے جواب میں بابا جی نے مجھے عشق کے موضوع پر طویل لیکچر دیا اور عشق کے متعلق حیران کن انکشافات کیے ۔میں آج تک عشق کو برا بھلا کہتا آیا تھا لیکن اس دن مجھے معلو م ہوا عشق خدا کی بہت بڑی توفیق ہوتی ہے ۔عشق کے متعلق بابا جی کے انکشافات کیا تھے وہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتاوٴں گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :