حادثہ یا قتل؟ اور فتویٰء دل

جمعہ 10 جنوری 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

آج کل اخبارات میں دو فتووں کا بہت چرچہ ہے ایک سعودی عالم کا فتویٰ ہے جس میں فرمایا گیا کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال حرام ہے اور دوسرا ایران کے مذہبی راہنما کا فتویٰ ہے جس میں کہا گیا ہے انٹرنیٹ پر غیر محرم مرد وزن سے چیٹنگ حرام ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمارے ہی اخبار ”دنیا“ میں اسی ایرانی مذہبی راہنما کے فتوےٰ کے ساتھ جو خبر لگی ہے وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ فیس بک پر دوستی کا انجام ملتان کی دو طالبات کے اغواء کی صورت میں سامنے آیا۔فیس بک والے فتویٰ پر تو بات ہوتی رہی گی لیکن سعودی عالم کے فتوی نے کم ازکم میری روح کو سرشار کر دیا۔ اس لیے کہ اسلام جو دین ہی سلامتی کا ہے اور آپ جوں جوں اس کی تہہ میں اترتے چلے جائیں اور اسلامی فلسفے کے مطابق جس قدر اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں یہاں تک پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں آپ اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسلام صرف سلامتی ہے ۔

(جاری ہے)

سلامتی ہے۔ سلامتی ہے۔۔ خیر ہی خیر ہے… امن ہی امن ہے معاشرہ ہو کہ فرد قوم ہو کہ مملکت اسلام ہر سو ظاہری وباطنی امن کے پھول کھلا دینا چاہتا ہے۔ روحانی وجسمانی تطہیر کے باعث ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی خواہش رکھتا ہے جس میں کسی کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے جس میں ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنا بھی ثواب کا باعث ہو تو جس دین میں راستے سے کانٹا اور پتھر صرف اس غرض سے ہٹا دینا ثواب میں شامل ہو کہ اس سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے اس دین کی خاطر سو بار قربان ہونے کا جی چاہتا ہے۔ اسی لیے سعودی عالم کا یہ فتویٰ کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال حرام ہے نے کم ازکم میری روح کو سرشار کر دیا۔۔ گو کہ اس فتوےٰ پر کچھ علماء کی مختلف رائے بھی سامنے آئی ہے۔ مگر بیشتر علماء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر حرام نہیں بھی ہے تو کم ازکم یہ گناہ ضرور ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ محراب ومنبر نے پچھلے کچھ عرصے سے معاشرے اور زمانے میں ہونے والی جدید تبدیلیوں کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور ان حوالوں سے مذہب کی روشنی میں جوراہنمائی مسلمانوں کو فراہم کی گئی اس سے کہیں زیادہ اس پر کام کرنے کی ضرورت تھی اور ہے کیونکہ مومن ہمیشہ اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے اس فتوے کے حوالے سے بھی نہ صرف عوام الناس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں گناہ ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کس نوعیت کا گناہ ہے کبیرہ ہے یا صغیرہ۔۔؟صغیرہ ہے تو صغیرہ کیوں ہے کبیرہ ہے تو گناہِ کبیرہ کیوں ہے؟ ایک سوال یہاں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب ریسرچ یہ ثابت کر چکی ہے کہ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ آج کے دور میں دورانِ ڈرائیونگ موبائل کا استعمال بن چکا ہے ۔ تو اس طے شدہ امر کے جاننے کے باوجود بھی کوئی شخص دورانِ ڈرائیونگ فون پر کسی دوست سے ٹھٹھا کرتے ہوئے یا اپنی اہلیہ سے دل لگی کرتے ہوئے یا اپنے بچوں سے گپ شپ کرتے ہوئے یا آفس کے بارے میں کوئی ہدایت دیتے ہوئے ہی سہی اگر کسی شخص کو ہٹ کر دیتا ہے اور شخص وہ ساری عمر کے لیے معذور ہو جاتا ہے یا اس کی جان چلی جاتی ہے۔ ایک گھرانہ ایک پورا خاندان اجڑ جاتا ہے یا ایک انسان ساری زندگی کیلئے بستر سے لگ جاتا ہے چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہتا تو کیا یہ صغیر گناہ ہو گا یا کبیرہ۔؟ اور کیا یہ جاننے کے باوجود بھی کہ دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کے باعث ایکسیڈنٹ کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اگر دوران ڈرائیونگ موبائل سنتے ہوئے ایکسیڈنٹ سے کسی کی جان چلی جائے تو یہ حادثہ ہو گا یا قتل۔؟
محراب و منبر کو لوگوں کویہ بھی بتانا چاہیے کہ ہسپتال کے آگے ہارن بجانے سے لے کر گھر میں کم سن ملازم رکھنے تک، وہ ڈور جس سے بچوں کی گردنیں کٹ کر باپوں کی گودوں میں گر جاتی ہوں اور ہوائی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات ہمیں کیا سکھاتی ہیں۔
محترم مفتیانِ دین کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک فتویٰ قارئین جب چاہیں میرے آقا سرکارِ دوعالم ﷺکی ایک حدیث کی روشنی میں اپنے دل سے بھی لے سکتے ہیں اور اسلام کی روشنی میں ہر دل کا فتویٰ وہی ہو گا کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے ۔ چلتے چلے ہمیشہ قائم رہنے والی کتابِ ہدایت پھر یاد آئی کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا پوری انسانیت کی جان بچائی جس نے ایک انسان کوقتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔ تو اس آیت کی روشنی میں کم ازکم میرے نزدیک موبائل فون سنتے ہوئے دوران ڈرائیونگ کسی کو مار دینا حادثہ نہیں ہے قتل ہی ہے۔ باقی افضل وہی ہے جو مفتیانِ دین فرمائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :