پاکستان کا ”عظیم لیڈر“

بدھ 8 جنوری 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

دنیا کے نامور لیڈروں کی فہرست بنا ئی جا ئے تو اسکندر اعظم کا نا م ٹاپ ٹین میں آئے گا ۔اسکندر کا باپ شاہ فلپ مقدونیہ کا حکمران اور اس کی والدہ اولمپیاس البانیہ کی سرحد پر واقع ایک پہاڑی ریاست ایپیرس کی شہزادی تھی ۔اسکندر ابھی آٹھ سال کا تھا کہ اس کی والدہ اولمپیاس کو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لا حق ہو ئی ،وہ جا نتی تھی مستقبل میں اسکندر کے کندھوں پر حکمرانی کا بوجھ پڑنے والی ہے اگر اس کی مناسب تعلیم و تربیت نہ کی گئے اور اس کے اندر لیڈر شپ کی صلا حیت پیدا نہ کی گئی تو اسکندر کبھی بھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکے گا ۔اولمپیاس نے ایتھنز شہر کے نو بہترین دانشوروں کا انتخاب کیا اور انہیں اسکندر کا اتالیق مقرر کر دیا ۔یہ سب علم کے پہاڑ تھے اورعلم کے مختلف میدانوں کے شاہسوار تھے ۔

(جاری ہے)

ان میں اولمپیاس کا ایک عزیز لا نیڈس بھی تھا جو نظم و ضبط کے حوالے سے مشہو ر تھا ،اس کے ذمے تھا کہ وہ اسکندر کو وقت کی پا بندی اور نظم وضبط سکھائے ۔اولمپیاس نے اسکندر کی روز کی سرگرمیوں کی ترتیب خو د دی تھی ۔ترتیب کے مطا بق لا نیڈس اسکندر کو طلو ع صبح سے پہلے بیدار کر تا اور ایک تیز اوربہادر غلا م کے ساتھ اس کی دوڑ لگواتا ،محل واپس آنے سے پہلے اسکندر مذہبی رسوما ت ادا کرتا اور اس کے بعد اسے ناشتہ دیا جا تا ۔ناشتے میں اسے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گوشت ،ان کی ہڈیا ں اور شوربہ پیش کیا جا تا تا کہ اس کا جسم مضبوط ہو ۔لا نیڈس چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی سرزنش کر تا ،اسے رنگ برنگے شاہی لباس پہننے دیتا نہ ہی اسے شاہی مہمان خانے سے مرغن غذائیں کھانے دیتا ۔اسکندر کی روزانہ کی سرگرمیوں اور اس کی تعلیمی پیش رفت کے جا ئزے کے لیے خفیہ مخبر مقرر کیے گئے تھے جو اس کی ہر لمحہ جا سوسی کرتے اور اولمپیاس کو رپورٹ پیش کر تے تھے۔اسکندر کے باپ نے اپنے بیٹے کو چار دوستوں کے ساتھ ارسطو کی اکیڈمی ”میزا“میں بھیجا ،ان دوستوں میں ایک شمشیر زنی کا ما ہر ،دوسرا تیر انداز ،تیسرا پڑھائی سے بیزار اور چوتھا احمق اور بیوقوف تھا ۔اسکندر کو ان چا روں کے ساتھ بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اسکندر مختلف انسانی مزاجوں اور رویوں سے واقفیت حاصل کر سکے اور اس میں انسانوں کو برداشت کی صلا حیت پیدا ہو سکے ۔اولمپیاس نے ارسطو کی اکیڈمی تک بیٹے کا پیچھا کیا اورجا سوس مقرر کیے تا کہ اسکندر کسی غلط کا م میں ملوث نہ ہو جا ئے ۔اسکندر نے تین چیزوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا ،خنجر ،اس کا پالتو گھوڑا اور قدیم یونانی شاعر ہو مر کی کتاب جو اسے اس کے استاد ارسطو نے پیش کی تھی ۔ابتدا ء میں اسکندر کو فو ج کے کچھ حصے کی کمان دی گئی ،اسکندر نے اپنے بہادری کے جو ہر دکھائے ،وہ دشمن کو سمبھلنے کا مو قع دیا بغیر اس پر حملہ آور ہو تا ،سپاہیوں کی بجائے خود آگے بڑھ کر حملہ کر تا اور دشمن کی صفیں چیرتا ہوا آگے تک جا گھستا ، وہ فوج سے پہلے خود آگے بڑھ کر حملہ کر نے کا عادی تھا اس لیے سپاہیوں کا مورال آسمان کوچھو نے لگا ،اسکندر کی فتوحات کو دیکھ کر جلد ہی اسے فو ج کی کمان سونپ دی گئے ۔وہ سخت محنت اور مشقت کا عادی تھا ۔وہ سقراط کے اس فلسفے کا قائل تھا کہ ایک فلسفی کو باشاہ ہو نا چاہئے یا ایک بادشا ہ کو فلسفی ہو نا چاہئے ۔اسکندر ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے باپ فلپ کو متحدہ یونان کی تنظیم بنانے کی دعوت دی تھی اور فلپ نے یو نانی ریاستوں کا وفاق تشکیل دیا تھا ۔اسکندر اپنے بڑوں اور خصوصا اپنے اساتذہ کا بہت ادب کر تا تھا اور یہ سب اسکی بچپن کی تربیت کا اثر تھا ۔ایک دفعہ اسکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ ایک پہاڑی راستے سے گزر رہا تھا ،آگے جنگل کا راستہ بڑا خطرنا ک تھا اور ندی کو پار کر نا خاصا مشکل تھا ،اسکندر نے ارسطو کو وہیں کھڑا کیا اور پہلے خود جا کر راستہ صاف کیا ۔ندی پا ر کرنے کے بعد ارسطو نے اسکندر سے پو چھا ”تم نے یہ خطرہ کیوں مو ل لیا اور تم پہلے خود کیوں ندی میں اترے “اسکندر نے سینے پر ہا تھ رکھ کر کہا ”معزز استاد اگر ارسطو زندہ رہا تو وہ سینکڑوں اسکندر بنا دے گا لیکن ہزاروں اسکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے “
اسکندر کی اسی تعلیم وتربیت کا اثر تھا کہ اس نے صرف 33سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر لی تھی ۔وہ313 قبل مسیح یورپ کے شہر مقدونیہ سے نکلا، یو نان کو فتح کرتا ہوا ترکی اور ایران میں داخل ہوا ،دارا کو شکست دی ،وہا ں سے شام گیا ،بیت المقدس اور بابل سے ہو تا ہوا مصر پہنچا ،کچھ عرصہ بعد ایران سے ہوتا ہوا افغانستان اور وہاں سے درہء خیبر کے راستے ہندوستان میں داخل ہو ا ،ہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا اور آگے بڑھتا حضرو تک آ گیا ،وہاں چھچھ کے نام سے ایک بستی بسائی جو آج تک موجود ہے ،اس کے بعد سکندر اعظم کی فوجیں ٹیکسلا اور راولپنڈی کی جا نب بڑھیں، جہلم اور راولپنڈی کے درمیان راجہ پورس کو شکست دی ،اپنے پیارے گھوڑے کی یاد میں پھا لیہ کا شہر بسایا ،اسی دوران ملیریا کا شکا ر ہوا ،سارے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی ،یونانی حکماء سمجھے سکندر خوف سے کپکپا رہا ہے مگر وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلاء ہو چکا تھا جس کا وجود یورپ کی سرحدوں سے باہر تھا چنانچہ یونانی حکماء خاطر خواہ علا ج نہ کر سکے اوروہ 323 قبل مسیح واپس مقدونیہ جاتے ہوے راستے میں انتقال کر گیا۔
27دسمبر کو بلا ول بھٹونے گڑھی خدا بخش میں تقریر کی اور اس کے بعد ہما رے دانشوروں نے اسے ایک عظیم لیڈر ڈکلیئر کر نا شروع کر دیا ۔ سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ مگرخدا را یہ بتا دیجئے کیا ایک لیڈر کی صرف یہی خصوصیات ہو تی ہیں کہ وہ گلا پھاڑ کر تقریر کرے اور مجمعے کو وقتی طور پر جذبات کے طوفان میں بہا دے ۔ عوام تو بیچارے سادہ لو ح ہیں اور ہر آب حیات کے دعویدار کو خضر سمجھ کر اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن حیرت ان دانشوروں اور کالم نگاروں پر ہے جو خود کو علم کا پہاڑ اور دانشوری کا معیار سمجھتے ہیں اور بلاول کو مستقبل کا عظیم لیڈر ڈکلیئر کرنے کے پرتلے ہو ئے ہیں ۔ملک کے ایک بڑے کالم نگار لکھتے ہیں بلاول پر تنقید کرنے والوں کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے ایک سال میں کتنی اردو سیکھ لی ہے اور اب وہ کتنی روانی سے اردو بولتا ہے ۔حیرت ہے کہ ان جیسا منجھا ہوا صحافی یہ بات کہہ رہا ہے اور دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت کی حکمرانی کے لیے صرف اردو زبان کو کا فی سمجھتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد بلاول کا شما ر بھی پاکستان کے” عظیم “لیڈروں میں ہو نا شروع ہو جائے گا اور آج سے دس بیس سال بعد اگر پی پی کو گو رنمنٹ کا مو قعہ ملا تو بلا ول ہمار اوزیراعظم ہو گا ۔کاش بلا ول کو لیڈر ڈکلیئر کر نے والے سطحی کالم نگار وں نے تاریخ پڑھی ہو تی تو انہیں پتا ہو تا کہ لیڈر کیسا ہو تا ہے ۔لیڈر وہ ہو تا ہے جو زمانے کا نبض شناس ہو ،جس نے تاریخ پڑھی ہو ،جو قوموں کے عروج و زوال سے واقف ہو ،جو دودھ پینے والامجنوں نہیں پہاڑوں کو کھودنے والے فرہاد کا سا جذبہ رکھتا ہو ،جو لکھی ہو ئی تقریریں نہیں فی البدیہ بولنے کی استعداد رکھتا ہو ،جس کی زندگی عوام میں گزری ہو ،جومعاشرے کے پسے ہو ئے طبقات کے مسائل سے بخوبی آگا ہ ہو ،جو عوام سے کچھ مانگے نہیں بلکہ عوام کی جھولیاں بھرے ،جو کا رکنوں سے پہلے خود میدان عمل میں اترے ،جس کا اوڑھنا اور بچھونا عوام کے ساتھ ہو ،جو بلا خوف و خطر عوام میں گھل مل جائے ،جو سال میں ایک بار نہیں ہر لمحہ عوام سے رابطے میں ہو ،جس میں مستقل مزاجی کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ،جو بلا کا ذہین اورغضب کا حاضر جواب ہو ،جو عوام اور سوسائٹی کی نفسیات کو گہرا ئی سے جانتا ہو ،جو نہ سنائی دینے والی آوازوں کو بھی سن لے ،جو نہ محسوس کیے جانے والے درد کو بھی محسوس کر لے ،جس کے پاس ہرن جیسا نرم دل اور پہاڑوں سے ٹکرانے جیسا حوصلہ ہو ،جس کی ڈکشنری میں ”ناممکن “جیسا لفظ سرے سے غائب ہو ،جس کا کردار انگلیاں اٹھنے سے پاک ہو اورجو تقدیر اور تدبیر دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عادی ہو ۔آپ دیکھ لیں بلا ول کا عوام سے رابطے کا واحد ذریعہ 27دسمبر کا جلسہ اور ٹوئٹر ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام میں سے صرف دس فیصد لو گ ٹو ئٹر استعما ل کرتے ہیں ۔27دسمبر کے جلسے کے بعد سے مجھے احساس ہو نے لگا ہے کہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے ابھی کا فی وقت لگے گا کیوں کہ اگر اس ملک کے عظیم دانشور اور کالم نگا ر ایک سیاسی نابالغ کو وقت کا ”عظیم “لیڈر ڈکلیئر کر نے پرتلے ہو ئے ہیں تو عوام کے شعور اور ان کے ذہنی افق کی جو صورتحال ہو گی وہ آپ کے ذہن میں ہو نی چاہئے ۔کاش بلا ول بھٹو سیاست کے گندے تالاب میں چھلانگ لگا نے کی بجائے پاکستان میں عالمی معیار کی کو ئی یو نیورسٹی قائم کر تے ،انٹر نیشنل معیار کا کو ئی ہسپتال بناتے اور غریب عوام کے لیے کو ئی فلا حی اور ترقیاتی منصوبہ لا نچ کر تے تو شاید یہ اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں بہتر ہو تا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :