بھولی عوام ، شاطر سیاستدان

ہفتہ 4 جنوری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان کے عوام بہت بھولے اور معصوم ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ"بھولے"اور "معصوم"ہمارے سیاستدان ہیں۔ اکثر سیاستدانوں کی جوشیلی تقریروں میں ایک جملہ سننے کو ملتا ہے کہ "آج کا ووٹر بہت ہوشیار ہو گیا ہے" ۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی وہ ووٹر کہاں بستے ہیں جنہیں ہوشیار کہا جاتا ہے۔ اگر آپ میں سے کسی کو معلوم ہو جائے تو برائے مہربانی مجھے بھی بتائیے گا تا کہ میرے معلوموت میں بھی اضافہ ہو جائے۔
پیپلز پارٹی کی "جمہوری حکومت" نے اپنی مدت پوری کی اور وہ اس پہ فخر بھی کرتی ہے ۔اور پیپلز پارٹی کے راہنما اس بات کو اپنی کارکردگی گردانتے ہیں کہ انہوں نے آئین کی بالا دستی کے لیے کام کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس آئینی بالادستی نے عوام کو ضروریات زندگی کے حصول کے لیے بھی قطاروں میں کھڑا رہنا سکھا دیا۔

(جاری ہے)

کچھ بعید نہیں کہ کبھی پیپلز پارٹی کا کوئی راہنما بلندو بانگ دعوی کر دے گا کہ یہ بھی ہمارا اعزاز ہے کہ بکھری ہوئی اور بے ترتیب قوم کو قطار میں سیدھا کھڑا رہنا سکھا دیا۔ چاہے یہ قطار گیس کے لیے ہو یا پٹرول کے لیے، چینی کے حصول کے لیے ہو یا آٹے کے ایک تھیلے کے لیے۔ "قطار تو قطار ہوتی ہی"۔
سوائے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے، اربوں روپے اپنے من پسند حلقوں میں صرف کرنے، کرپشن کے ہماری سوچ سے بڑے اسکینڈل بنانے، اقربا پروری،وزراء، مشراء اور قائدین کی سیکیورٹی کے نام پر کھربوں خرچ کرنے کے علاوہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہ دیا۔آخری چند دنوں مین کیا گیا پاک ایران گیس معائدہ بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے زیادہ کچھ نہ تھا کیوں کہ انہیں پتا تھا کہ "ن لیگ" کبھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ئے گی ایسا کر کے وہ سعودی عرب کی ناراضگی کسی صورت نہیں مول لے سکتے ۔ اب بھولی عوام کو بھی تو کوئی لالی پاپ دینا تھا ۔ لہذا عوام کی توجہ عدلیہ سے محاذ آرائی کی طرف کر دی گئی ۔ ہر روز اخبارات میں عدلیہ کیخلاف بیانات شہہ سرخیوں میں نظر آتے۔ اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ ہوتا تھا کہ عام آدمی غربت، بے روزگاری ، مہنگائی کو چھوڑ کر ایسی باتوں میں دلچسپی دکھانا شروع کر دیتا تھا۔ جس سے اس کو کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا تھا۔ حکومت جان بوجھ کے عدلیہ سے محاذ آرائی کو میڈیا کے سامنے لاتی تھی تاکہ لوگ اصل مسائل بھولے ہی رہیں اور حقیقت میں ہوا بھی ایسا ہی۔ اپوزیشن نے بھی حکومت کا اس "جمہوری سفر " میں خوب ساتھ دیا۔ میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری، افراط زر،دہشت گردی وغیرہ کے لیے کوئی لانگ مارچ نہ کیا بلکہ وہ صرف صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور علی بابا جیسے خطابات دینے میں مصروف رہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب بھی کبھی حکومت و اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی سی صورت حال پیدا ہوتی عام آدمی اپنے دکھڑے بھلا کر بس یہ دیکھنے میں مصروف ہو جاتا کہ اب دیکھیں جیت کس کی ہوتی ہے۔ اس بھولی عوام کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ یہ نورا کشتی تو کی ہی اس لیے جا رہی ہے تا کہ عوام اس بات کی فکر ہی کرنا چھوڑ دیں کہ چینی 27 سے 50روپے کلو ہو گئی۔ دال 40سے 110روپے کلو ہو گئی۔ بھولی عوام تو کبھی میاں کے نعرے لگانا شروع کر دیتی کبھی بھٹو کے وارث کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیتی۔ میاں اور زرداری صاحب آپس میں باہم ہاتھ ملا کر دل ہی دل میں یہ کہہ رہے ہوتے کہ "دیکھا کیسے ہم دونوں بھائیوں نے مل کر عوام کو بے وقوف بنایا"۔بطور اپوزیشن میاں صاحب نے "معائدہ بھوربن" خوب نبھایا اور "بڑے بھائی" کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی مشکل نہ پیدا ہونے دی۔ جب بھی کبھی حقیقی معنوں میں حکومت کے لیے مشکل پیدا ہوتی تو میاں صاحب فوراً ایک رٹا رٹایا بیان داغ دیتے"ہم جمہوریت کو ڈی ریل ہونے کی کسی کوشش کا ساتھ نہیں دیں گے"ْ۔اس کے نتیجے میں جمہوریت تو ڈی ریل نہیں ہوئی لیکن ملکی معیشت ضرور ڈی ریل ہو گئی۔
یہی صورت حال آج بھی ہے۔ ذرا الیکشن سے پہلے کے بیانات کا جائزہ لیں۔ "ہم 6ماہ میں بجلی کی قلت کا خاتمہ کر دیں گے"۔ "ریلوے سونے کی چڑیا ہے ۔ ہم اس کو ایک سال کے اندر منافع بخش بنا دیں گے"ْ۔" پاکستان ائیر لائن کا موجودہ حکومت نے بیڑہ غرق کر دیا ہے ہم آ کر اس کو پیروں پر کھڑا کریں گے"۔"ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالیں گے اور کوئی نیا قرضا نہیں لیں گے"۔ "ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہمارا اولین ترجیح ہو گی"ْْ۔ اور سب سے "مخولیا"بیان یہ کہ اگر ہم بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے تو اقتدار چھوڑ دیں گے۔ اور الیکشن کے بعد تمام وعدے"ٹھس"۔
یہ بھولی عوم تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر لیتی تھی۔مجھے کوئی ایک ایسا وزیر یا مشیر ڈھونڈ کے اس کا نام بتا دیں جو انتخابی جلسوں میں کیے گئے اپنے کسی ایک بھی وعدے پر قائم رہا ہو۔ یا اس نے کوئی ایک بھی ایسا وعدہ پورا کیا ہو جس کی بنیاد پر اس نے ووٹ لیے تھے۔ آج بھی حکومت وقت ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے، مشرف کیس، سوئس بینک کیس، بلدیاتی انتخابات،گیلانی کیس،اسی طرح کے اور بہت سے کیس ۔ آ پ نے شاید ایک بات پہ غور نہیں کیا کہ ایفی ڈرین کیس کی بازگشت اب کہیں سنائی نہیں دیتی ۔حدیبیہ پیپز ملز کیس پر دھول جم چکی ہے۔اتفاق فاؤنڈری بھی یقینا آپ کو یاد ہی ہو گی۔ پچھلی حکومت پورے پانچ سال یہی راگ الاپتی رہی کہ آئین کی بالادستی قائم ہو جائے تو عوام کی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی۔ اور اب موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل نکلی ہے۔ مشرف کیس کی مثال سامنے رکھیں۔ آپ اس معاملے پر پورے ملک میں عوامی ریفرینڈم کروا لیں کہ کتنے لوگ چاہتے ہیں کہ مشرف کو سزا ہو؟دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ مشرف نے اچھا کیا یا برا انہیں تو غرض اس بات سے ہے کہ مشرف کے دور میں چینی 27روپے کلو تھی۔
ایک عام آدمی کے لیے پارٹیوں کی آئینی جنگ سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ وہ کیسے اپنی بیٹی کو باعزت طریقے سے رخصت کرے جس کے بالوں میں گھر کی دہلیز پر ہی سفیدی نے اپنا ڈیرہ جما لیاہے۔ اگر ہمارا کوئی مشیر کسی ایک تقریب کا خرچہ ہی الگ کر لے تو شاید اس سے کسی غریب کی بیٹی پیا دیس سدھار جائے۔ ہمسایہ ملک میں "عام آدمی پارٹی" نے اقتدار سنبھالتے ہی انتخابی وعدے کے تحت 400یونٹ تک بجلی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت آدھی کر دی۔ اور ہمارے ہر نئے دن کے ساتھ نئی قیمت لاگو کی جار ہی ہے۔ کیا پاکستان میں ایک "عام آدمی"میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ محترم خواجہ آصف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پوچھ سکیں کہ جناب جب آپ کو پتا تھا کہ بجلی کا بحران تین سال سے کم عرصے میں حل نہیں ہو سکتا تو پھر آپ نے انتخابی وعدوں میں 6ماہ کیوں کہا تھا؟لیکن یہ کوئی نہیں پوچھے گا ۔کوئی تو ہم میں سے ایسا ہو جو محترم اسحٰق ڈار صاحب سے پوچھے کہ حضرت یہ ڈالر کو کون سے پہیے لگا دیے ہیں آپ نے جس سے ڈالر کی رفتار رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔لیکن کون ہے جو پوچھے۔ کاش "ن لیگ" کے وہ جوشیلے کارکن میاں صاحب سے یہ پوچھنے کی بھی ہمت پیدا کر لیں کہ "میاں صاحب اگر پانچ سال آپ نے مشرف کے پیچھے پڑ کے ہی گزارنے ہیں تو پھر ہم میٹرو ٹرین ، کرچی و پنڈی میٹرو بس، پاکستان ایشیئن ٹائیگر،معیشت کی مضبوطی، خود انحصاری یہ سب بھول جائیں؟
بھولی عوام پتا نہیں کب یہ سمجھے گی کہ صاحبان اقتدار کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ غریب کی جھگی میں چولہا جلا ہے کہ نہیں کیوں کہ ان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے موجود ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ننگے پاؤں میں جوتی ہے کہ نہیں کیوں کہ وہ گھر کے دروازے سے دفتر کے دروازے تک جھنڈے والی گاڑی میں جاتے ہیں۔
ویسے میاں صاحب سے ایک گذارش ہے کہ مشرف کو اس کے حواریوں سمیت سزا دیں تو تب مزا آئے۔ پھر تو بہت سے میاں صاحب کے ہم نشیں بھی رگڑے میں آسکتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہو لیکن ایسا ہو گا نہیں کیوں کہ کسی لیگی جیالے میں اتنی ہمت نہیں کہ ایسا پوچھے ۔ کیوں کہ عوام ہے بہت بھولی، اور سیاستدان ہیں نہایت شاطر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :