”میری ماں“

جمعہ 3 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

حافظ ذوہیب طیب
مجھے جب بھی وہ لمحات یاد آتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو روا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، درد کا طوفان ہو تا ہے جو چاروں طرف سے میرے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے کر غمزدہ کر جاتا ہے کہ جب ماں جی شدید تکلیف میں مبتلا ہوتیں ،کچھ لمحوں کے لئے جب وقت ملتا تو ان کے پاس بیٹھ کر حوصلے اور امید کے چند لفظ بولنے کی کوشش کرتا۔پھر روح کو زخمی کرنے والی درد میں ڈوبی جن نظروں سے وہ مجھے دیکھتیں اسے بیان کر نے سے قاصر ہوں۔ماں جی کو ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا اور اس مرض سے جنگ لڑنے کا عزم اور مہنگے ترین علاج کے لئے میں نے دو نو کریاں کر نے کا عہد کیا ۔ صبح سے شام اردو بازار لاہور میں پرانی کتابوں کے سٹال اور رات سے صبح ٹیمپل روڈ پر واقع چائے کی ایک دوکان پر محنت مزدوری کر کے ماں کے علاج کے لئے پیسے جمع کر نے کی سعی میں مصروف ہو گیا۔

(جاری ہے)

میں ادھر اپنی سی کوشش کر رہا تھا اور اُدھر مرض تھا کہ جس کی شدت بڑھتی جارہی تھی ۔ تکلیف کے عذاب کی وجہ سے ماں جی روز بروز زندگی کے اس پار جہاں خاموشی اور صرف تاریکی ہے بڑھتی جارہیں تھیں۔بالآخر ایک صبح اپنی ماں کو زندگی کی طرف واپس لیجانے والی میری تمام کوشیشیں رائیگاں رہیں اور وہ اپنے رب کی طرف لُوٹ گئیں جو اپنے بندے کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے۔لفظ ”ماں“ کے اندر قدرت نے اتنی شیرینی اور مٹھاس پیدا کردی ہے کہ اس کا نام لیتے ہی ہمدردی،غمخواری اور محبت کے ملے جلے احساسات زبان کے رستے روح و جسم کا حصہ بن کر انسان کو خدمت اور فر مانبرداری کے رستے کا مسافر بناتے ہیں ۔رب کریم نے یہ اعزاز ماں کے نصیب میں ہی رکھا ہے کہ چوہے اور چھپکلی سے خوفزدہ ہونے والی عورت کو جب تخلیق کی ذمہ داری دینے کے لئے چنا جاتا ہے تو وہ ماں بننے جیسے مشکل ترین اور آزمائش سے بھرے عمل سے گزر جاتی ہے۔ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جس کو رب کریم نے تخلیق کا اعجاز عطا کر کے اپنی صفت سے بہرہ مند فر مایا۔اپنی اولاد کو اپنے سے بھی زیادہ عزیز رکھنے والی ماں خود تو زندگی کی ہر تپش کو برداشت کر لیتی ہے لیکن اپنی اولاد کو ہر دکھ اور تکلیف سے بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی، یہ دیکھنا ہو تو کبھی تھیلیسیمیاکے شکار بچے کی ماں کو دیکھیں جو ہر رات بچے کے پیٹ میں انجکشن لگا کر اس کے سرہانے بیٹھی رہتی ہے کہ کہیں اس کے کروٹ بدلنے پر سوئی اس کو نقصان نہ پہنچا دے۔کیا کبھی کسی نے اس ماں کی تکلیف کا اندازہ کیا ہے جوشوگر میں مبتلااپنے بچے کو انسولین دیتی ہو گی یا پھر دمہ میں مبتلا اپنے جگر گوشے کے اُکھڑے ہوئے سانسوں کو دیکھ خود بھی کس مشکل سے سانس لے رہی ہوتی ہے؟کیا ہم یں سے کسی نے اندازہ کیا کہ ماں کتنا کرب،دکھ اور درد سہہ کر یہ خلق خدا کو پالتی پوستی اور راتیں جاگ کر انہیں راحت و سکون پہنچاتی ہے ۔
قارئین کرام !مجھ سمیت کوئی بھی شخص جب بھی اپنے والدین بالخصوص ماں کے احسانات کا حساب کتاب لگانا شروع کرتا ہے تو لاکھ کو شش کے بعد بھی ناکام و نامراد ٹہر تا ہے کیونکہ ہم زندگی تو دور تو ان کی ایک رات کا احسان زندگی بھر نہ چکا پائیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآ ن حکیم میں ارشاد رب کریم ہے:”اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑ ھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو،نہ ہی انہیں جھڑک کے جواب دو،بلکہ ان سے احترا م کے ساتھ بات کرواور نر می و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کے رہو اور دعا کیا کروکہ پروردگار!ان پر رحم فرماجس طرح انہوں نے پچپن میں مجھے پالا“نبی محترم ﷺ نے بھی بار ہا دفعہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فر مائی ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی محترم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہےِ آپ ﷺ نے فر مایا:” تمہا ری ماں“،پوچھا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فر مایا:”تمہاری ماں“،پوچھا پھر کون؟آپ ﷺنے فر مایا : ”تمہاری ماں“،پو چھا پھر کون: آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا:” تمہارا باپ“۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں،جنت کو پانے کا آسان راستہ ہے ۔ ماں ایک پھول ہے جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ایک سمندر ہے جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے لیکن کم نہیں ہو سکتا،ایک ایسی دوست جس کی ڈکشنری میں بے وفائی نام کا کوئی لفظ نہیں،ایک ایساوعدہ جو کبھی نہ ٹوٹے،ایک ایسا خواب جو تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے،ایک ایسی محافظ اور نگہبان جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے محفوظ رکھتی ہے،ایک ایسی دعا جو ہر کسی کے لب پر ہر وقت رہتی ہے۔یہ سہ حرفی لفظ”ماں“وہ داستان ہے جو آج تک کسی مصنف سے لکھی نہ گئی ،وہ نظم جسے کو ئی شاعر سوچ نہ سکا،وہ دُھن جسے کوئی موسیقار تخلیق نہ کر سکا،تو مجھ جیسے حقیر سا انسان کچھ الفاظ لکھ کے کائنات کی اس عظیم ہستی کا بھلاحق کس طرح ادا ء کر سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :