خیبرپختونخوا چیمبر کابزنس کمیونٹی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے نوٹسز پر اظہار تشویش

ریجنل ٹیکس آفس پشاور 45 دنوں میں ری فنڈز ادائیگی کا پابند ہے مگر بزنس کمیونٹی کو سال سے 6 مہینے ری فنڈز ادا نہیں کیا جا رہا، ٹیکس بقایاجات کی آڑ میں بزنس کمیونٹی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کئے جاسکتے ہیں تو پھر ری فنڈز میں تاخیر پر ٹیکس افسران کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے،صدر خیبرپختونخوا چیمبر

اتوار 8 مئی 2016 16:52

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8 مئی۔2016ء) خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ذوالفقار علی خان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لئے نوٹسز کے اجراء پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر دہشت گردی اور انتہاء پسندی سے متاثرہ صوبے کی بزنس کمیونٹی کے ٹیکس بقایا جات کی آڑ میں ایک بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کیاگیا تو بزنس کمیونٹی بینکوں سے اپنا سرمایہ نکال لے گی ۔

ریجنل ٹیکس آفس پشاور 45 دنوں میں ری فنڈز ادائیگی کا پابند ہے لیکن بزنس کمیونٹی کو سال سے 6 مہینے ری فنڈز ادا نہیں کیا جا رہا اگر بزنس کمیونٹی کے ٹیکس بقایاجات کی آڑ میں بینک اکاؤنٹس منجمد کئے جاسکتے ہیں تو پھر ری فنڈز میں تاخیر پر ٹیکس افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

وفاقی اور صوبائی حکومتیں خیبر پختونخوا کے تاجروں اور صنعتکاروں کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کریں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز اپنے آفس میں میڈ یا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ خیبر پختونخوا چیمبر کے صدر ذوالفقار علی خان نے کہا کہ ٹیکس حکام بزنس کمیونٹی کو ہراساں کر رہے ہیں اور ریجنل ٹیکس آفس کی جانب سے ٹیکس وصولی کی آڑ میں بینکوں کو کاروباری افراد کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے نوٹسز جاری کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواکی بزنس کمیونٹی پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہاں کے صنعتکار اور تاجر بڑی بہادری اور جرات کے ساتھ دہشت گردی انتہاء پسندی بھتہ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ وارداتوں کا مقابلہ کر رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی معاشی صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کی بزنس کمیونٹی کے لئے مزید مشکلات پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کمرشل بینکس کسی قسم کی لینڈنگ نہیں کر رہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے پشاور میں تمام کمرشل بینکوں کے ہیڈز کو بلایا اور انہیں ہدایات جاری کیں کہ وہ خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی کو آسان شرائط پر قرضوں کے اجراء کو یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود کوئی بینک اس صوبے کی بزنس کمیونٹی کو قرض دینے کے لئے تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں بجلی اور گیس کا بحران یہاں کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گیس میں سرپلس ہونے کے باوجود نئے انڈسٹریل اور کمرشل گیس کنکشنز پر پابندی عائد ہے جو بعض ذرائع کے مطابق حکومت اب ہٹا رہی ہے لیکن کم پریشر کا معاملہ جوں کا توں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسی بزنس فرینڈلی معاشی پالیسیاں متعارف کرانی چاہئیں جس سے اس صوبے میں سرمایہ کاری کا عمل شروع ہو اور پہلے سے موجود سرمایہ کاروں کے جان و مال کو تحفظ فراہم ہو ۔

ایک سوال کے جواب میں خیبر پختونخوا چیمبر کے صدر ذوالفقار علی خان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے حال ہی میں نئی انڈسٹریل پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صوبے میں نئی صنعتیں لگانے والے صنعتکاروں کے لئے بجلی بینک مارک اپ اور پلاٹس سمیت دیگر مراعات کا اعلان کیاگیا ہے جبکہ صوبے میں پہلے سے موجود صنعتوں کے لئے کسی قسم کے ریلیف کا اعلان نہیں کیاگیا ۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ نامساعد حالات کا مقابلہ کرنیوالی بزنس کمیونٹی کا احساس کرنا چاہئے اور نئے اکنامک زون بنانے اور نئی صنعتوں کو مراعات دینے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود صنعتوں کے لئے بھی مراعات کااعلان کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کی تاریخ کو نہیں دہرانا چاہئے جہاں دیگر صوبوں کے سرمایہ کاروں نے 5 سال تک مراعات سے فائدہ اٹھایا اور مراعات ختم ہونے پر اپنا سرمایہ یہاں سے منتقل کردیا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو نئی انڈسٹریل پالیسی میں موجودہ صنعتوں کے لئے بجلی کی مد میں 25 فیصد ری بیٹ اور بینک مارک اپ پر 5فیصد تک رعایت دینا ہوں گی ۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے نئی انڈسٹریل پالیسی میں نئی صنعتوں کیلئے سالانہ 2 ارب روپے کی مراعات کا اعلان کیا ہے اور اگر موجودہ صنعتوں کیلئے بھی مراعات کا اعلان کیا جائے تو حکومت کو ایک ارب روپے سے بھی کم اضافی فنڈز مختص کرنا پڑیں گے جس سے صوبائی خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔

ذوالفقار علی خان نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صوبے کی تاجر برادری کو آئندہ 5 سال کے لئے ہر قسم کے ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دے۔ ذوالفقار علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں قیام امن کو افغانستان میں امن سے مشروط کیا اور کہا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک یہاں کی بزنس کمیونٹی اور عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ۔

انہوں نے کہاکہ آپریشن ضرب کی وجہ سے بم دھماکوں اوردیگر جرائم پیشہ وارداتوں میں کمی آئی ہے تاہم سرحد کے اُس پار سے اب بھی صوبے بالخصوص پشاور کی بزنس کمیونٹی کو بھتہ کی کالز موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پاکستان کے وجود کا زخمی بازو ہے اور اگر حکومت نے اس زخمی بازو کو سنبھالا نہ دیا تو اللہ نہ کرے کہ یہ زخمی بازو کاٹنا پڑ جائے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بزنس کمیونٹی کے جان و مال کو ہر صورت تحفظ فراہم کرنا چاہئے ۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغان حکومت انڈیا ایران اور چائنا کو مراعات دے رہی ہے وہی مراعات پاکستان اور خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی کو بھی فراہم کرے ۔

متعلقہ عنوان :

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں