یونیورسٹیوں کیلئے حکومت کے اقدامات ، اصلاحات اور ترامیم ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں، میاں افتخار حسین

اگر حکومت نے ہمارے وضع کردہ نظام یا فارمولے کو نہیں چھیڑا ہوتا تو بحران جنم نہیں لیتا حکومت کی ترامیم اور نظام کی خرابیوں کے باعث صوبے کی 10 یونیورسٹیاں وائس چانسلرز سے محروم ہیں

جمعرات 24 مارچ 2016 22:41

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔24 مارچ۔2016ء)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے صوبے کی یونیورسٹیوں کے انتظامی اُمور اور وائس چانسلرز کی تعیناتی سے متعلق صوبائی حکومت کے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے یکطرفہ اور اپنے مفادات پر مبنی پالیسی کے باعث یونیورسٹیوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً دس یونیورسٹیاں وائس چانسلرز سے محروم ہیں اور دیگر مشکلات میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

باچا خان مرکز پشاور میں پیوٹا کے صدر جمیل چترالی کی زیرقیادت وفد سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اے این پی 2012 میں جو یونیورسٹیز ایکٹ لے آئی تھی وہ میرٹ اور حالات ضروریات کے عین مطابق تھی اور یونیورسٹیوں کے متعلقہ حکام اس ایکٹ سے مطمئن بھی تھے تاہم موجودہ حکومت نے محض بدنیتی کی بنیاد پر ریفارمز اور آرڈیننس کے ذریعے اس نظام کو سبوتاژ کر دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ترامیم کے ذریعے بہتر اصلاحات لانا چاہ رہی ہے۔

(جاری ہے)

تاہم حکومت نے پہلے سے موجودہ میکنیزم کو تباہ کر کے رکھ دیا اور اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ حکومت 2015 کے اپنے ایکٹ میں ترامیم پر ترامیم کرتی چلی آ رہی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مسلسل ترامیم اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ حکومت کا وضع کردہ نظام یا ایکٹ یا تو غلطیوں کا مجموعہ ہے یا اس میں بنیادی سقم موجود ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ معاملات بہتر ہونے کی بجائے بگڑتے گئے۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے ہمارے ایکٹ یا اصلاحات میں ناقابل عمل اور غیر ضروری ترامیم نہ کی ہوتیں تو یونیورسٹیوں کے معاملات چلانے میں دشواری پیدا نہ ہوتی اور نہ ہی بحران جنم لے لیتا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ مسلسل ترامیم اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارا وضع کردہ نظام اور فارمولہ درست تھا کیونکہ ان کی ترامیم اور اصلاحات ناکامی سے دوچار ہوگئی ہیں اور اس وقت حالت یہ ہے کہ دس یونیورسٹیاں وائس چانسلرز سے بھی محروم ہیں۔

اس صورتحال نے یونیورسٹیوں کی مجموعی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔ میرٹ کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور اساتذہ میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت اپنے پسندیدہ لوگوں کو کھپانے کے رویے پر گامزن ہیں حالانکہ اُنہوں نے سخت شرائط کے ذریعے وائس چانسلرز کیلئے جو فارمولہ وضع کیا تھا ریکارڈ کے مطابق اس فارمولے پر بھی تقریباً 65 افراد پورے اُتر رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ حکومت ایک بار پھر ایکٹ میں ترامیم اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ 65 میں سے کوئی بھی پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت کے شریک اقتدار پارٹیوں سے وابستہ نہیں ہے اس لیے اپنے منظور نظر لوگوں کو کھپانے کیلئے ایسے اقدامات اُٹھا رہے ہیں ۔ اگر ایسا کیا جا رہا ہے تو موجودہ حکومت کی دیگر ناجائز اور غلط ترامیم کو بھی اس میں سے نکالا جائے اس کے لیے اسمبلی میں موجود سابقہ دور کے تجربہ کار پارلیمینٹرین کے تجربے سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اُنہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ یونیورسٹیوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے اے این پی میرٹ کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کرتی رہے گی تاکہ اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جائیں اور تعلیم کو عام کیا جائے۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں