حملوں کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان سمیت ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔میاں افتخار حسین

کارروائیوں سے ثابت ہوتا ہے یا تو پلان پر عمل نہیں ہو رہا، یا اس میں کمزوریاں ہیں، حالات بہتر ہونے کی بجائے پھر سے خراب ہونے لگے ہیں

جمعہ 12 فروری 2016 21:55

ٖپشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 فروری۔2016ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان سمیت ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے اور خبر دار کیا ہے کہ اگر ریاستی اداروں اور حکمرانوں نے ابہام ، لاتعلقی اور سستی پر مبنی رویے تبدیل نہیں کیے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائیگا اور وہ بدترین عدم تحفظ کے باعث اپنی حفاظت کے لیے مزاحمت پر اُتر آئیں گے۔

پشاور کے نامور تاجر شہید حاجی حلیم جان اور شعیہ برادری سے تعلق رکھنے والے خوش آواز نوحہ خواں اور سرکاری افسرشہید افتخار کی تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ ملک میں نہ تو سنی محفوظ ہے اور نہ شعیہ ۔

(جاری ہے)

ایسے میں یہ سوال اُٹھنا فطری ہے کہ وہ کون ہیں جو بیک وقت سب کو نشانہ بنانے نکلے ہیں اور ان کا راستہ روکنا کن کی ذمہ داری ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ فوجی اقدامات اور نیشنل ایکشن پلان کے باوجود دہشتگردی ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور دیگر کارروائیوں میں اضافے سے ہمارا یہ خدشہ پھر سے درست ثابت ہو گیا ہے کہ یا تو نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا یا اس میں بعض بنیادی خامیاں یا نقائص موجود ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ آج کوئی بھی طبقہ مسلک یا ادارہ حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ایک وارننگ تھی تاہم اداروں اور حکمرانوں نے اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ عوام کے احساس عدم تحفظ نے ایسی شکل اختیار کی کہ اب وہ مزاحمت پر اُترتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ عوام بجا طور پر سوال اُٹھا رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کیوں نہیں ہو رہا۔ اگر ہو رہا ہے تو حالات بہتر ہونے کی بجائے ایک بار پھر خراب کیوں ہو رہے ہیں اور معاشرے کے مختلف طبقے بیک وقت حملوں کی زد میں کیوں ہیں؟ اُنہوں نے کہا یہ تاثر بہت عام ہے کہ حکمرانوں اور اداروں نے عوام کو بوجوہ حملہ آوروں کے سامنے پھینک دیا ہے اور ان کا عملاً کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم مسلسل یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ عملی اقدامات اور حملوں کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کے علاوہ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور کمزوریوں ، نقائص کے خاتمے کیلئے مزید اقدامات کیے جا ئیں۔ تاہم عملاً ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی اور اس کے نتائج عوام ، فورسز ، مختلف مسالک اور مختلف طبقوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے بعض قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تاہم ہمارے پالیسی سازوں کو حالات کی نزاکت اور نتائج کا ادراک نہیں ہو رہا اوراگر اُنہوں نے اپنے رویے تبدیل نہیں کیے تو عوام کا ریاست پر اعتماد اُٹھ جائیگا اور وہ اپنے تحفظ کیلئے مزاحمت پر اُتر آئیں گے۔میاں افتخار حسین نے کہا کہ وزیر اعظم نے غیر ملکی دوروں سے فرصت کے باوجود باچا خان یونیورسٹی کا دورہ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

یہ اس جانب اشارہ ہے کہ وہ امتیاز اور لاتعلقی کے رویے پر گامزن ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جس نوعیت کا رد عمل اے پی ایس سانحہ کے بعد سامنے آیا تھا وہ یونیورسٹی کے معاملے میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ حلیم جان نے جب دھمکیوں سے متعلقہ حکومتی اداروں سے آگاہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ وہ خاموشی سے رقم ادا کریں۔ اگر حکومت کا رویہ اسی نوعیت کا ہے تو سوال اُٹھتا ہے کہ لوگ کن سے جا کر تحفظ مانگیں اور ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں

متعلقہ عنوان :

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں