نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کو حکومتی نااہلی کا ملبہ باچا خان یونیورسٹی کی انتظامیہ پر گرانے کی اجازت نہیں دی جائیگی، زاہد خان

اُصولی طور پر کمیٹی بذات خود قابل محاسبہ ہے ،تحقیقات کو کلی طور پر مسترد کرتے ہیں،پیشگی اطلاعات، خطرات کے پس منظر میں یونیورسٹی کو تحفظ فراہم کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری تھی،رہنماء عوامی نیشنل پارٹی

ہفتہ 30 جنوری 2016 20:14

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 جنوری۔2016ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے باچا خان یونیورسٹی پر کیے گئے حملے کی جوڈیشل انکوائری کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے معاملے کی تحقیقات کیلئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں جو کمیٹی قائم کی ہے اس سے غیر جانبدارانہ کردار کی اس لیے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ انتظامیہ کا حصہ ہے اور اُصولی طور پر اس کمیٹی کے ارکان خود قابل محاسبہ ہیں۔

اے این پی سیکرٹریٹ سے جاریکردہ بیان کے مطابق زاہد خان نے کمیشن کے قیام تحقیقات اور کارکردگی پرشدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے کلی طور پر مسترد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی کے سانحات کا جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے اور والدین ، متاثرین کے مطالبے کی بنیاد پر ان کی داد رسی بھی ہو۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی کے حملے کی تحقیقات کیلئے جو کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ انتظامیہ کا حصہ ہے اور اُصولی طور پر اس کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ یہ کمیٹی ان افراد پر مشتمل ہے جو کہ انتظامی طور پر براہ راست اس سانحے کے ذمہ داران میں آتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ لگ یہ رہا ہے کہ کمیٹی ایک منطم منصوبے کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی نا اہلی کا ملبہ یونیورسٹی انتطامیہ پر ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔

حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پیشگی اطلاعات اور خطرات کے پس منظر میں یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اے این پی یونیورسٹی انتظامیہ کو مورود الزام ٹھہرانے کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کرے گی اور نام و نہاد تحقیقات کے نام پر حکومتی نا اہلی اور غفلت کا ملبہ کسی اور پر گرانے نہیں دے گی۔ اُنہوں نے اپنے بیان میں کمیٹی کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل انکوائری کی احکامات جاری کیے جائیں۔

متعلقہ عنوان :

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں