آرمی چیف کا ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ پیشہ ورانہ رویے کا عکاس ہے، میاں افتخار حسین

یہ بات خوش آئند ہے کہ عسکری اور حکومتی قیادت نے افغانستان سے متعلق تاثر اور ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی تاہم وزیر اعلیٰ کا بیان قطعاً مختلف ہے

پیر 25 جنوری 2016 23:07

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔25 جنوری۔2016ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے ملازمت میں توسیع نہ لینے کے فیصلے کو پیشہ ورانہ رویہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی ساکھ کی بہتری کیلئے آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اور رویوں کے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

آرمی چیف نے وضاحت کر کے ابہام دور کر دیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پسند ، نا پسند کی بجائے میریٹ کی بنیاد پر نئے سربراہ کا تعین کیا جائے تاکہ اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اگر چہ توسیع دینے یا نہ لینے کی تفصیلات آنا ابھی باقی ہے تاہم آرمی چیف کا واضح بیان خوش آئند ہے۔پشاور میں میاں افتخار حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کے حالیہ بیان نے مختلف نوعیت کے ابہام اور شکوک دور کردئیے ہیں ۔

(جاری ہے)

سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور پیشہ ورانہ رویے نہ صرف اداروں کی ساکھ اور بہتری کیلئے لازمی ہے بلکہ اس انڈر سٹینڈنگ کے ملکی حالات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جمہوریت کو فروغ ملتا ہے۔ دہشتگردی کے معاملے پر ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اے پی ایس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے قیام کے نتیجے میں جو اُمید پیدا ہوگئی تھی بدقسمتی سے وہ پوری نہیں ہوئی ۔

اگر تمام نکات پر عمل درآمد کیا جاتا تو دہشتگرد دوبارہ منظم نہ ہوتے اور حملوں کی تعداد بڑھنے سمیت باچا خان یونیورسٹی پر حملے جیسا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کا داعش سے متعلق پیش گوئی اور پاکستان سے مزید اقدامات اُٹھانے کے مطالبے بھی سنجیدگی کیساتھ لینے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان اور ہماری داخلہ ، خارجہ پالیسیوں کو ہنگامی طور پر ری وزٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ چیلینجز اور خطرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور عوام میں بد ترین عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور بعض دیگر اہم حلقے خود اعتراف کررہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کی رفتار اطمینان بخش نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بیڈ اور گڈ طالبان کا امتیاز کیے بغیر تمام کالعدم اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائیوں سے پاکستان اور خطے کا مستقبل مشروط ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ آئی ایس پی آر نے سانحہ چارسدہ کے پس منظر میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی حکومت کو مورود الزام نہیں ٹھہرایا تھا بلکہ ان عناصر کی بات کی گئی تھی جنہوں نے سرحدی علاقوں میں پناہ لی ہوئی ہے اوروہ دونوں ممالک کو حملوں کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

تاہم یہ بات بہت عجیب ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سانحہ چارسدہ کی ذمہ داری بھارتی ایجنسی پر ڈال دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار لوگ ایسے بیانات دینے سے گریز کریں اور آپس میں معلومات کا بروقت تبادلہ کیا کریں تاکہ ابہام پیدا نہ ہو۔ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ بھارت ، افغانستان اور پاکستان کی ریاستوں کے درمیان دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اور رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ ، داخلی پالیسیوں کو نئے خطرات اور چیلینجز کو سامنے رکھ کر نئی ملکی اور علاقائی صف بندی کی جائے تاکہ مزید حملوں اور تباہ کاریوں کا راستہ روکا جا سکے۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت کو باچا خان یونیورسٹی کی تجاویز اور مطالبات کی روشنی میں حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ آئندہ ایسے حملوں سے بچا جائے جبکہ دیگر اداروں کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے بھی ایک مربوط اور فوری نظام بنایا جائے۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں