آئین پاکستان کے تحت ہر قسم کے غیر انسانی سلوک کی ممانعت ہے‘ سینیٹر پرویز رشید،پولیس تشدد ایک حقیقت ہے مگر اٹھارویں ترمیم کے تحت فئیر ٹرائل کی شق اس طرح کے تشدد کے خلا ف تحفظ فراہم کرتی ہے‘ وزیر اطلاعات و نشریات

اتوار 23 مارچ 2014 19:16

آئین پاکستان کے تحت ہر قسم کے غیر انسانی سلوک کی ممانعت ہے‘ سینیٹر پرویز رشید،پولیس تشدد ایک حقیقت ہے مگر اٹھارویں ترمیم کے تحت فئیر ٹرائل کی شق اس طرح کے تشدد کے خلا ف تحفظ فراہم کرتی ہے‘ وزیر اطلاعات و نشریات

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23مارچ۔2014ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت کسی بھی قسم کے تشدد کی مخالفت کرتی ہے ، آئین پاکستان کے تحت ہر قسم کے غیر انسانی سلوک کی ممانعت ہے‘پولیس تشدد ایک حقیقت ہے مگر اٹھارویں ترمیم کے تحت فئیر ٹرائل کی شق اس طرح کے تشدد کے خلا ف تحفظ فراہم کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمہوری کمیشن برائے انسانی حقوق کے زیر اہتمام تشدد کی روک تھام کے حوالے سے ریجنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

کانفرنس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین قانون کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں تشدد کے روک تھام کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔پرویز رشید نے مزید کہا کہ آرمڈ فورسز کے خلاف تشدد کے الزامات کے تحت اب ایف آئی آر درج کرائی جا سکے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے تحت ہونے والی سفارشات ہمارے لئے مشعل راہ کا کام کریں گی۔سماجی کارکن ،حنا جیلانی نے کہا کہ کوئی صورتحال کوئی قانون تشدد کا جواز مہیا نہیں کرتا ، کسی بھی قسم کے حالا ت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک موثر قانونی نظام کی غیر موجودگی میں تشدد کا خا تمہ ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے ہمیشہ تشدد کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے ، مگر آج بھی ریاستی اداروں کی طرف سے ، تشدد کے خفیہ مراکز ، غیر قانونی حراست روزمرہ کا معمول ہیں۔تشدد کو اعترافی بیان لینے کے لئے آج بھی ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے اعترافی بیان کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور عدالت میں تسلیم نہ کیا جائے۔پروفیسر اعجاز خٹک نے ملک میں تشددکے حوالے سے صورت حال کا ایک جائزہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بدقسمتی سے تشددکو امن و امان قائم رکھنے کے لئے ایک آسان حل سمجھتے ہیں۔پاکستان نے یو این کنونشن اگینسٹ ٹارچر پر بھی دستخط کر رکھے ہیں،

واضح رہے کہ اس معاہدے کے تحت حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو ہر قسم کے تشددسے تحفظ فراہم کرنے کے لئے پابند ہے۔

داکٹر فیصل باری نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غریب آدمی کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ تشدد کا شکار یہی طبقہ ہوتا ہے۔کانفرنس میں مرتب کی جانیوالی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جدید سائنسی خطوط پر تربیت کے ساتھ ساتھ جرائم کی نوعیت کے حوالے سے اسی شعبہ میں مہارت رکھنے والے افسران کو تفتیش کی ذمہ داریا ں سونپی جائیں۔

ایک موثر نظام احتساب جس میں تشدد کے الزامات کی تفتیش کے لئے آزاد ادارہ کا قیام ، تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال، جیسی تجاویزشامل تھیں۔ لاپتہ افراد کے معاملہ پر شرکا ء نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے ضروری ہے کہ جونہی قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کو گرفتار کریں تو فوراً اس کی اطلاع اس کے لواحقین کو دی جائے۔

اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک دوسر ے سے موثر رابطہ ، اور تشدد کے متاثرین کے لئے بلامعاوضہ قانونی خدمات کی فراہمی بھی تجاویز میں شامل تھیں۔

لوگوں میں تشدد کا شعور اجا گر کرنے کے لئے میڈیا کے اہم کردار پر بھی بات ہوئی اور شرکا ء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ میڈیا کا کردار لوگوں تک ان کے اس حق کا شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔

آئی اے رحمان نے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان میں تشدد کو بدقسمتی سے پولیس ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش نہ کرنا بھی تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے اور لاپتہ افراد کے کیس میں یہی ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو ہر قسم کے دباوٴ سے آزاد ہونا چاہئے اور بغیر کسی تعصب کے پوری دیانتداری سے اپنا کام کریں تو تشدد کا خا تمہ ہو سکتا ہے۔

عدالتی نظام کی خرابیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بد قسمتی سے پاکستان میں تشدد کو فوری انصاف کے ایک ذریعے کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور تشدد دو متضاد چیزیں ہیں ، ریاست کا فرض عوام کی حفاظت کرنا ہے ، پاکستان نے یو این کیٹ پر بھی دستخط کئے ہوئے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کی حفاظت کے لئے موثر قوانین بنائے جائیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں