پنجاب اسمبلی نے فیصلہ ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کا بل منظورکر لیا ،اپوزیشن کی ترمیم کثرات رائے سے مسترد ،متفقہ منظور سمجھا جائے‘ اپوزیشن لیڈر،لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرینگے ،دھرنے کے دوران بد سلوکی کے واقعے کی انکوائری کرا کے رپورٹ ایوان میں پیش کی جائیگی‘ وزیر اعلیٰ پنجاب، بل کی منظوری کے مرحلے کے دوران حکومت اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی کے باعث ایوان میں شور شرابہ ہوتا رہا ،بل کا معاشرے کی عام خواتین کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،اپنے لوگوں کو نوازا نے کیلئے خانہ پری کی گئی ‘ اپوزیشن اراکین ،پوری دنیا خواتین کی ترقی کی بات کر رہی ہے ،صرف طالبان اور تحریک انصاف مخالفت کر رہی ہے ‘ وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان

ہفتہ 8 مارچ 2014 20:07

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8مارچ۔2014ء) پنجاب اسمبلی نے صوبے کے فیصلہ ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کا بل منظورکر لیا ، اس بل کے ذریعے 25992خواتین کو مختلف اداروں میں پالیسی اور فیصلہ سازی میں نمائندگی ملے گی ،اپوزیشن کی ترمیم کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا، جبکہ اپوزیشن لیڈر میاں محمو دالرشید کا کہناتھاکہ بل کو متفقہ طور پر منظور سمجھا جائے ، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بل کی منظوری پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کیلئے قانون لائیں گے اور مال روڈ پر دھرنے کے دوران خواتین مظاہرین سے بد سلوکی کے واقعے کی انکوائری کرا کے اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی ۔

بل کی منظوری کے مرحلے کے دوران حکومت اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی کے باعث ایوان میں شور شرابہ جاری رہا ۔

(جاری ہے)

ترمیم پر بحث میں حصہ لیتے اپوزیشن اراکین کا کہنا تھاکہ اس بل کا معاشرے کی عام خواتین کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اسکے ذریعے مختلف اداروں میں اپنے لوگوں کو نوازا جائے گا ۔ پنجاب اسمبلی کا خصوصی اجلاس مقررہ وقت دو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ دس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔

اجلاس میں صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے مسودہ قانون خواتین کی مناسب نمائندگی پنجاب 2014ء پیش کیا جسے اپوزیشن کی ایک ترمیم کو کثرت رائے سے مسترد کرتے ہوئے منظور کر لیا گیا ۔تاہم قائد ایوان وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ بل کو متفقہ طور پر منظور سمجھا جائے ۔خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کیلئے پنجاب کے 27محکموں کے قوانین میں 66ترامیم کی گئی ہیں۔

بل کی منظوری سے فیصلہ ساز اداروں میں25992خواتین کو نمائندگی ملے گی۔ بل کی منظوری کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا کہ میں اس بل کی منظوری پر پنجاب اسمبلی کے معزز ایوان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ انہوں نے بتایا کہ میں آج ہی ترکی کے دورے سے واپس پہنچا ہوں اور ترکی کے وزیر اعظم نے پاکستان آمد پر والہانہ استقبال کرنے پر پوری پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ترکی وہ اسلامی ملک ہے جہاں مساجد پانچوں نمازوں کے وقت بھری ہوتی ہیں جبکہ نماز جمعہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی لیکن ملک کی ترقی میں معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت او رعسکری قوت ہے اور اسکی ترقی دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے اورچین کی ایک ارب تیس کروڑ کی آبا دی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل کر انقلاب لے کر آئی ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ چین کی حکومت اور قیادت نے پاکستان کے مسائل کو سمجھا ہے۔ چین نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور انہیں پتہ ہے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اندھیرے ہیں اور دہشتگردی نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ چین نے سات سالہ پروگرام کے تحت پاکستان کو 32ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے جس سے پن بجلی ، انفراسٹر اکچر ، اکنامک کوریڈور اور ریلوے کے نظام کو مضبوط کرنے کے منصوبے مکمل کئے جائینگے ۔

ہمیں چین سے سالانہ ساڑھے ارب ڈالر ملنا ہے اور اگر ہم ایمانداری سے ان 32ارب ڈالر کا 70سے 80فیصد بھی حاصل کر لیں تو پاکستان سے ہمیشہ کے لئے اندھیرے ختم ہو جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے انکار نہیں کہ خواتین کے کردار کے بغیر خوشحالی کا خواب پورا ہو سکتا ہے اسی لئے ہم نے اس ایوان میں خواتین کو با اختیار بنانے کا بل پاس کیا ہے جس میں 25ہزار سے زائد خواتین کو مختلف اداروں میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں با اختیا ربنا یاگیا ہے آج یہ پچیس ہزار ہیں تو آنے والے سالوں میں یہ تعدادپچیس لاکھ تک پہنچ جائے گی ۔

حکومت نے پنجاب ایجوکیشن انڈولمنٹ فنڈ کے ذریعے پچیس ہزار بچیوں کو وظیفہ دیا جارہا ہے جبکہ لیپ ٹاپ سکیم میں ساٹھ فیصد بچیوں کو لیپ ٹاپ دئیے گئے ۔ چار ارب کے چھوٹے قرضہ جات کے اجراء میں پچاس فیصد قرضے خواتین کو دئیے گئے جبکہ وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم میں بھی پچاس فیصد کوٹہ خواتین کے لئے مختص کیا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں نے اپوزیشن لیڈر کی تقریرسنی ہے میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ مال روڈ پر احتجاج کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ناروا سلوک کی انکوائری کرائی جائے گی اور اسکی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی ۔

انہوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حوالے سے ایوان کو بتایا کہ سابقہ حکومت نے اعتماد میں لئے بغیر انہیں صوبوں کو دینے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کی تنخواہوں کے لئے سالانہ اربوں روپے درکار ہیں ، میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیا جائے گا اور انکے لئے قانون لے کر آئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری دیہی خواتین کا معاشی ترقی میں اہم کردار ہے لیکن اب ہم نے قدم اٹھا یا ہے اور یہ قدم پیچھے نہیں بلکہ آگے جائے گا اور ہر وہ کام کریں گے جس سے خواتین کو معاشرے میں ترقی ملے ۔

قبل ازیں اپوزیشن لیڈر نے بل کی ترمیم کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لئے جتنی آواز تحریک انصاف نے بلند کی ہے اسکی مثال نہیں ملتی ۔ ہم اس بل میں بہتری کے لئے ترمیم لے کر آئے تھے لیکن حکومت کیوں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتی ۔ حکومت کی طرف سے عجلت اور افرا تفری میں بل لانے اور منظوری پر تعجب اور افسوس ہے ۔ اس بل کی منظوری سے قبل اسکی تشہیر کی جاتی اور اس پر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں ، گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین اور اپوزیشن اور پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیتی ۔

حکومت نے اس سے پہلے 2012ء میں بھی پیکج دیا تھا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا ۔ اس بل پر بھی قانون سازی ہو جائے گی لیکن قانون بن جانے کے بعد اس پر عملاً کچھ نہیں ہوگا ۔ حکومت بتائے اس بل سے معاشرے کی عام خواتین کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس بل میں خواتین کو ہراسان کرنے ، انکی عصمت دری کو روکنے اور انکے تحفظ اور اس طرح کے اقدامات کے تدارک کے لئے کوئی شق شامل نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کا سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا لیکن حکومت نے انہیں ٹرخا دیا ۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ اس بل کاگھروں میں بیٹھی ہوئی اور معاشرے کی عام خواتین کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یہ سب کچھ خانہ پری کے لئے کیا جارہا ہے ۔ فائزہ ملک نے کہا کہ اگر حکومت خواتین کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا۔

خواتین اس ایوان کی رکن ہیں لیکن انہیں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے جاتے ، خواتین کو آج بھی دو کیٹگری میں رکھا گیا ہے ۔ سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ ہم انتخابات میں عافیہ صدیقی کے نام پر ووٹ تو مانگتے ہیں لیکن اسکی رہائی کے لئے بات نہیں کرتے ۔ اس موقع پر اپوزیشن کے دیگر اراکین نے بھی ترمیم پر بحث میں حصہ لیا ۔ اپوزیشن لیڈر رانا ثنا اللہ خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بل پر ترمیم جمع کرانے اور بحث میں حصہ لینے پر اپوزیشن کا شکر گزار ہوں لیکن میں انکی خوبی کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بحث میں بل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ۔

اپوزیشن نے جو ترمیم دی تھی کمال مہارت سے اس پر بھی اظہار خیال نہیں کیا ۔ اپوزیشن نے جس 20ستمبر 2013ء کا ذکر کیا ہے پتہ نہیں وہ کب آئے گا ۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کچھ نہیں ہوگا ، کچھ نہیں کیا جائے گا بلکہ انکی ہر بات مایوسی کی طرف گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا خواتین کی ترقی اور انہیں با اختیار بنانے کی بات کر رہی جبکہ صرف طالبان اور تحریک انصاف واحد جماعت ہے جو اسکی مخالفت کر رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں 66ترامیم کی گئی ہیں جس سے تمام حکومتی ، سٹرکچر باڈیز ، انسٹی ٹیوٹ،پبلک پرائیویٹ ، سنڈیکیٹس ، بورڈ آف گورنرز میں 25ہزار سے زائد خواتین کو پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں با اختیار بنایا گیا ہے ۔بل پر ترمیم کے دوران اپوزیشن اراکین اور حکومتی اراکین میں لفظی جنگ بھی ہوتی رہی اور شور شرابا ہوتا رہا جس پر ڈپٹی اسپیکر بار بار اراکین اسمبلی کو خاموش کراتے رہے ۔ اجلاس کے آغاز سے قبل تحریک کی منظوری کے ذریعے خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے کام کرنے والے مختلف تنظیموں کی سو سے زائد خواتین کوایوان کی گیلری میں بیٹھ کر اجلاس کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی ۔ کارروائی مکمل ہونے پر اجلاس منگل سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں