پاکستان اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جہاں مستقبل قریب میں سیاسی منظر نامہ بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے،رپورٹ

منگل 4 فروری 2014 14:16

لاہور( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 4 فروری 2014ء ) پاکستان اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جہاں مستقبل قریب میں سیاسی منظر نامہ بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے،لوگ روایتی سیاست سے اکتانے لگے ہیں یا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ زیادہ باشعور ہو گئے ہیں اور سیاسی نعرے بازی ، انتقامی کارروائیوں کو سمجھنے لگے ہیں۔دونوں ممالک میں نوجوان قیادت ابھرتی دکھائی دے رہی ہے جس کی پاکستان میں مثال بلاول بھٹو زرداری اور بھارت میں راہول گاندھی کو بھی دیا جا سکتا ہے جن کی خاندانوں کی سیاست جمہوریت کے لیے بے مثال قربانیاں ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 43سالہ کنوارے راہول گاندھی دو مرتبہ ہندوستانی وزیر اعظم رہنے والے راجیو گاندھی کے صاحبزادے اور سابقہ وزیر اعظم ِاندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اتفاق کی بات ہے کہ دونوں سابق وزرائے اعظم کے حصے میں سیاسی موت آئی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ہی کانگریس کی جانب سے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ماضی میں نہ تو راہول گاندھی اور نہ ہی سونیا گاندھی کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے چنا گیا۔

دوسری طرف پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ہاں پیدا ہونے والے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری دسمبر 2007 میں طالبان کے ہاتھوں اپنی ماں کی ہلاکت کے بعد انیس سال کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے۔آصف زرداری کی جانب سے بلاول زرداری کا نام تبدیل کرکے بلاول بھٹو زرداری کردیا گیا اور بلاول کی وطن واپسی پر پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔

مضبوط خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے دونوں نوجوان سیاستدان نہ صرف اپنے والد اور والدہ کو بلکہ اپنے اپنے نانا اور دادی کو بھی سیاست کے ہاتھوں گنوا چکے ہیں جس کے بعد ان دونوں کو بھی عسکریت پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان دونوں کے مابین نہ صرف اپنے پیاروں کو گنوانے کی تاریخ مشترک ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور کچھ چیزیوں میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔

بی جے پی کی جانب سے کانگریس کے دور اقتدارکو ہندوستانی عوام کے لئے ایک مکمل ناکام دور گردانا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے من موہن سنگھ کا چناؤ بھی کانگریس پر نقطہ چینی کا باعث بنتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے آنے والے انتخابات کے لئے انتخابی مہم کا کپتان راہول گاندھی کو منتخب کیا گیا ہے۔

جو کہ گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔بھٹو خاندان کے نوجوان سیاست دان بلاول بھٹو زرداری کو بہترین تعلیم کے حصول کے لئے ایچی سن کالج لاہور میں داخل کروایا گیا۔ تاہم سکیورٹی وجوہات کی بِنا پر پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد کے سکولوں میں زیر تعلیم رکھا گیا۔آکسفورڈ میں جدید تاریخ، برطانوی تاریخ اور جنرل تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلاول بھٹو جون 2010 میں وطن واپس آئے۔

تاہم ستمبر 2008 میں بلاول اپنے والد کی صدارتی تقریب حلف برداری میں شمولیت کے لئے بھی خصوصی طور پر پاکستان آئے۔انگلش نظام تعلیم اور معاشرے میں پروان چڑھنے والے دو نوجوان دو بڑے ممالک کی سیاست کو نئے رخ کی جانب موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،حال ہی میں بلاول بھٹو کی جانب سے سندھی ثقافت کے فروغ کے لیے ورسٹائل میلے کا انعقاد کیا گیا جس میں چکا چوند روشنیوں ،سندھی لباسوں میں ورسٹائل ڈانس نے سندھ ثقافت کو ایک نیا رخ دیا اگر زرداری سندھی ثقافت کے فروغ کے لیے تقریب منعقد کرتے تو یہ بالکل مختلف ہوتی دیکھنا ہو گا کہ نئی قیادت کے اقتدار میں آنے پر کس حد تک تبدیلی آئے گی۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں