سندھ اسمبلی نے سندھ سول سرونٹس (ترمیمی ) بل 2015ء کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی

جمعہ 10 اپریل 2015 20:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 اپریل۔2015ء) سندھ اسمبلی نے جمعہ کو سندھ سول سرونٹس (ترمیمی ) بل 2015ء کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی ، جس کے ذریعہ سندھ سول سرونٹس ایکٹ 1973 ء کی مختلف شقوں میں ترمیم کی گئی ہے ۔ اس ترمیمی بل کے تحت صوبے میں ہونے والی ان تمام تقرریوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے ، جو عارضی طور پر مخصوص مدت کے لیے ڈیپوٹیشن کے ذریعہ کی گئی تھی اور مستقل طور پر محکمہ جاتی ترقی یا تقرری بذریعہ تبادلہ یا انضمام کے ذریعہ کی گئی تھی ۔

یہ قانونی تحفظ 1973ء سے دیا گیا ہے ، جب سندھ سول سرونٹس ایکٹ 1973ء منظور ہوا تھا ۔ اس ترمیم کا اطلاق بھی مذکورہ ایکٹ کے نفاذ سے ہو گا اور یہ تصور کیا جائے گا کہ یہ ترمیم ہمیشہ سے مذکورہ ایکٹ کا حصہ ہے اور یہ بھی تصور کیا جائے گا کہ تمام تقرریاں مذکورہ ایکٹ کے تحت کی گئی ہیں اور ان کے بارے میں کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر سوال نہیں اٹھایا جا سکے گا ۔

(جاری ہے)

ترمیمی بل کے تحت دوسرے صوبوں اور وفاقی حکومت سے تبادلے کے ذریعہ تقرر کو بھی قانونی تحفظ دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیپوٹیشن کو بھی قانونی تحفظ میسر آ گیا ہے ۔ ترمیمی بل کے تحت حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی کیڈر کی سروس میں تقرریاں کر سکتی ہے اور یہ تصور کیا جائے گا کہ یہ اختیار اسے مذکورہ ایکٹ کے نفاذ کے وقت سے حاصل ہے ۔

سندھ کے وزیر قانون ڈاکٹر سکندر میندھرو نے اس ترمیمی بل کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ سندھ سول سرونٹس ایکٹ 1973ء کو وفاق اور دیگر صوبوں کے سروس قوانین سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے اور اس میں تقرریوں کے مختلف طریقوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ان میں تبادلے ، انضمام ، ڈیپوٹیشن وغیرہ کے ذریعہ تقرریاں شامل ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا بل ہے ۔

حکومت کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے میرٹ کی بنیاد پر اس کی کیڈر اور نان کیڈر اسامیوں پر تقرری کر سکے لیکن دوسرے محکمے میں کسی بھی تقرری کے لیے یہ شرط ہونی چاہئے کہ تقرری حاصل کرنے والے کی سنیارٹی سب سے نیچے ہو ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خواتین ارکان مہتاب اکبر راشدی اور نصرت سحر عباسی نے بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس قانون کا ناجائز استعمال نہیں ہونا چاہئے ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ڈیپوٹیشن ، انضمام اور محکمہ جاتی ترقیوں کے ذریعہ ہونے والی تقرریوں کے خلاف جو فیصلہ دیا ہے ، اس فیصلے سے متاثر ہونے والوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے ۔ سید سردار احمد نے کہا کہ اس قانون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سپریم کورٹ قانون سازی کے لیے منع نہیں کرتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں